853

بدفعلی ۔۔۔ بے حیاانسان اندھا قانون یہ کیسا آیا زمانہ!*

I8Ko*بدفعلی ۔۔۔ بے حیاانسان اندھا قانون
یہ کیسا آیا زمانہ!*

*حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی۔۔۔ جمشید پور*
آج کل ہم جنسیت کے حا می جس جوش و خروش سے خوشی منارہے ہیں اور مادر پدر آزاد میڈیا ان کاجشن دکھا کر جوداد و تحسین حاصل کر رہاہے ، یہ قوم کی اخلاقی شکست فاش ہے ۔ 6 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی گندی خواہش کو’’ شخصی آزادی‘‘ کے نام پر پوری کردیا ۔ عدالت عظمیٰ کے پا نچ رکنی بنچ نے 158سالہ پرانے قا نون انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 جس میں ہم جنسیت کو قابل تعز یر قرار دیا گیا تھا ، کو سابق چیف جسٹس دیپک مشرا نے ختم کر کے اپنا تاریخی فیصلہ یہ کہہ کر سنا یا :جنسی رجحان ایک طبعی مظہر ہے ،اس کی بنیاد پر کوئی تفریق دستوری حقوق کے خلاف ہے ‘‘۔ ایک اور فاضل جج اندو ملہو ترا نے اپنا فیصلہ ان الفاظ میں سنا یا :تاریخ معذرت پیش کر تی ہے کہ ہم جنسیت کے حامیوں کو ان کے حقوق ملنے میں دیر ی ہوئی ۔‘‘
اسلام کی رُوسےانسانی نسل کی افزائش اور انسانوں کے باہمی تعلقات کا انحصار مرد اور عورت کے باہمی ربط و تعلق پر ہے۔ جس معاشرے میں یہ تعلق جتنا پاک اور مضبوط ہوگا وہ معاشرہ انتہائی پر امن اور خیرو برکت کا حامل ہوگا اور جس معاشرے میں اس تعلق سے ضوابط وقواعد ڈھیلے ہوں گے، اس معاشرے کی مثال اس جنگل کی سی ہوگی جہاں جانور بغیر قاعدہ کلیہ کے اختلاط( جنسی ملن) کے عمل سے گزرتے ہیں۔اسی لئے اسلام نے عورتوں اور مردوں کی مجرد( بن بیاہا) زندگی کو عیب قرار دیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو نکاح کی ترغیب دی ہے۔ نکاح کو آسان سے آسان کرنے کی تاکید کی ہے۔صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت رکھتا ہو، اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رکھتا اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اور جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا ہو اسے چاہئے کہ شہوت کا زور کم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً روزہ رکھا کرے۔
آ ج کل یہ بحث بہت زوروں پر ہے کہ ہم جنس پرستی فطری ہے یا غیر فطری؟ 2؍جولائی 2009 کو دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اجیت پرکاش اور جسٹس ایس مرلی دھرن نے section-477Aکے تحت یہ فیصلہ دیاکہ مرد، مردسے اپنی جنسی خواہش پوری کر سکتا ہے۔ اسی طرح عورت، عورت سے اپنی جنسی خواہش پوری کر سکتی ہے، یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ (العیاذ باللہ)۔چند مٹھی بھر مسخ شدہ فطرت ہوس پرستوں کا حوصلہ اس عدالتی فتوے سے اتنابڑھا کہ وہ سپریم کورٹ جا پہنچے۔ سپریم کورٹ نے 11؍دسمبر 2013 کو دفعہ 377کے تحت اسے غلط قرار دیا اور یہ فیصلہ دیا کہ ہم جنس پرستی نہ صرف غلط ہے بلکہ جرم بھی۔ دفعہ 377کے تحت ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے اور اس فعل میں ملوث لوگوں کو اس دفعہ کے تحت سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔ فیصلہ آنا تھا کہ بکاؤ میڈیا (جیسا کہ ہمیشہ سےہوتا چلاآیاہے) اس عادلانہ فیصلے کو لوگوں کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حد یہ ہوگئی کہ اس فیصلہ کے خلاف ملک کے بڑے بڑے لیڈران نے بھی واویلا مچایا۔ اللہ نے ہر جاندار کے نر و مادہ جوڑ ے پیدا فرمائے ہیں۔ یہ نر و مادہ جوڑے نسل کی بقاکے لئے ہیں۔ ان کا آپس میں جنسی ملاپ قدرت کے قانون کے عین مطابق ہے۔ یادرہے انسانی قانون کسی حال میں قانونِ الٰہی کا بدل نہیں ہو سکتا اور قوانین الٰہی کے فائدے، حسنات و برکات کو کسی انسانی قانون کے ذریعہ حاصل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ہم جنسیت خواہ مردوں کے درمیان ہو یا عورتوں کے مابین یہ حرام و گناہ ہے ۔ لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی میں مبتلا تھی۔ اسی فعل قبیح کی پاداش میں ان پرعذاب ِ خداوندی آیا۔ آج ایڈز نے نہ صرف دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ امریکہ، یورپ بلکہ ہندوستان میں بھی یہ بیماری بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ حال ہی میں محکمہ صحت کے سابق مر کزی وزیر مسٹر غلام نبی آزاد کا اپنے عہد وزارت میں بیان تھا کہ ایڈز کی بیماری ہندوستان کو بھی تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہی ہے ۔ یقینا یہ خدائی عذاب ہے۔آج جو لوگ ہوموسیکسچیولٹی کو’’ آزادی‘‘ سے موسوم کر تے ہیں وہ شیطان پلید کے چیلے ہیںاورچاہتے ہیں اللہ کاقہر قوم پر ٹوٹ پڑے۔
مسلم معاشرہ اس گندی، خبیث، گھناؤنی عادت سے بچنے کے لئے اللہ کے رسولؐ کے فرمودات عالیہ پر حالات کی ناموافقت کے باوجود چلیں ۔ اس جرم کے کرنے والے کے لئےاسلام میں سخت سزا تجویز فرمائی گئی ہے۔ رسول اللہ ؐ کافرمان ِ عالیشان اس ضمن میں ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، ترمذی شریف اور دار قطنی میں واضح طور موجود ہیں۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒفرماتے ہیں کہ حاکم ِوقت کو اختیار ہے کہ ایسے مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دے تاکہ کسی اور کو اس کے ارتکاب کی جرأت نہ ہو۔فاحشہ وہ گناہ ہے جسے عقل بھی برا سمجھے۔ کفر اگرچہ بد ترین گناہِ کبیرہ ہے مگر اسے رب نے فاحشہ نہ فرمایا کیونکہ نفسِ انسانی اس سے گھن نہیں کرتی مگر لواطت تو ایسی بری چیز ہے کہ جانور بھی اس سے متنفرہیں سوائے خنزیر (سور) کے۔ سور بھی یہ فعل بد کرتاہے۔ لوطی شخص بیوی کے قابل نہیں رہ جاتا۔ یہ بد کاری تمام جرموں سے بڑا جرم ہے۔ مردوںمیں یہ گھناؤنا کام کرنے کرانے والوں کو سخت بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ ان ہی وجوہ سے مذہبِ اسلام میں اس کی سزا زنا سے بھی سخت ہے۔ کہتے ہیںیہ غلط اور قبیح کام شیطان نے ایجادکرایا۔ ایک روز وہ حسین وجمیل لڑکا بن کر کسی باغ میں گھس گیا اور باغ والے کودعوت دی کی ایسی حرکت کرو۔ اس نے کیا، پھر اس نے لوگوں کو بتایا اور اس وبا کو پھیلا دیا۔ یہ بات کفر سے بھی گری ہوئی ہے۔ کفر سے لوگ گھن نہیں کرتے مگر اس سے سب سلیم الفطرت گھن کرتے ہیں۔ اس فعل کے کرنے والے کو جوع البقر (ایک بیماری کانام)بھی کہتے ہیں۔ زیادہ کھانے والی بیماری ہے۔ جتنا کھانا بھی کھالے بھوک باقی رہتی ہے۔ پورے کنواں کا پانی بھی پی لے گا تو پیاس نہیں بجھے گی۔ یہی حال ان حوالوں سے بگڑے نفس کا ہے۔امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ظالم اور متکبر و بد فعلی کرنے والا اپنی موت سے قبل ہی اپنے ظلم و بدفعلی کی کچھ نہ کچھ سزا ضرور پاتاہے اور ذلت و نامرادی کا منہ دیکھتا ہے۔ چنانچہ ظالم و مظلوم اور بد فعلی کرنے والوں کی عبرتناک ہلاکت و بربادی کی داستانیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
ِ اسلام میں ناموس و عزت اور وقار وسنجیدگی کی بہت اہمیت ہے۔ اس لئے قرآن نے عزت و ناموس کے لٹیروں کے لئے سخت سزاؤں کا اعلان فرمایا۔ ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت بری راہ ہے۔(بنی اسرائیل آیت32) ۔آج کی نو جوان نسل جو کھلے عام مادر پدر آزاد ی کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم بالغ ہیں، ہمیں کسی روک ٹوک کے بغیر آزادی سے اپنی زندگی جینے کا غیر مشروط حق حاصل ہے۔ آزادی کاحامی سب سے زیادہ اسلام ہے مگر مسلم نوجوانوں کے لئے آزادی کا مطلب اخلاقی، روحانی ، فطری ، سماجی اورا نسانی بندشوں اور ذمہ داریوں سے قطع تعلق نہیں ۔ اسلام کا نقطہ نظر کے ماننے والے خالص خداکے بندے ہوتے ہیں ، شیطانی نفس کے غلام نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ ہم جنسیت کو لاکھوں کروڑوں لعنت بھیجتے ہیں۔ اسی میں ان کی عافیت و فلاح اور بھلائی مضمرہے۔ اسلام دنیا میں فاحشات اوربے حیائی کی روک تھام کا سب سے بڑھ کر اہتمام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔ ’’ وہ لوگ جو مسلمانوں میں بے حیائی پھیلنے کو پسند کرتے ہیں ،ان کے لئے دردناک عذاب ہے، دنیا اور آخرت میں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ النورآیت 19)۔ چونکہ حیا و شرم تہذیب اسلامی اور ایمانیات کا اہم ترین جز ہے، اسی لئے تہذیب وشرافت سے ناآشنا مغرب دھرا دھڑ اسلام قبول کر رہاہے تاکہ اسے پاکی ٔ نفس اور طہارت معاشرہ کا درجہ مل جائے۔
بہرصورت ہم جنس پرستی تمام اخلاقی اور جسمانی بیماریوں کی جڑ ہے۔ اس کا کرنے والا مہلک و لاعلاج بیماریوں میں مبتلاہوتا ہے اور بالآخر خدائی عذاب وعتاب کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص عورت کے لائق نہیں رہ جاتا، نہ ہی عورت کو خوش کر سکتا ہے۔ اس کی طبیعت عورت کی طرف بالکل مائل نہیں ہوتی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس کی قوتِ باہ (Sex)ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔ (حکیم جرہانی) حکیم صاحب نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایا ہےکہ اس فعل سے مفعول کا دل ضعیف ہوجاتا ہے اور اس کی منی غیر محرک ہوجاتی ہے۔ بہت سے حکماء کا قول ہے کہ اس گناہ کی عادت والے کی آنتوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جو بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ جنسی ماہرین کاکہنا ہے دونوں کو کیڑے (جراثیم) پڑ جاتے ہیں۔ فاعل(کرنے والا) مفعول(کرانے والا) دونوں کو ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کا خطرہ سو فیصد بڑھ جاتاہے۔ شیخ الحکما بو علی سینا کا قول ہے کہ ہم جنس پرستی مرض نہیں بلکہ یہ علت(عادتِ بد) ہے جو وہمی و کسبی ہے اور ایسے لوگوں کا علاج کرنا فضول ہے بلکہ ضرب سے کام لینا چاہئے۔ حکیم گیلانی جو ماہر جنسیات بھی تھے، نے کہا ہے کہ ایسے لوگوں کوبھری مجلس میں شرمندہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی اس عادتِ بد سے باز آجائیں۔ حکیم زکریا صاحب، حکیم اعظم خان صاحب اور حکیم گیلانی نے اس فعل کی سخت مذمت کی ہے اور ایسے مریضوں کے علاج کومنع کیاہے۔ اکثر اطباء اس بات پر متفق ہیں کہ ہم جنس پرستی خواہ وہ نر کے درمیان ہو یا مادہ کے درمیان دونوں صورتوں میں فاعل، مفعول انزال کے بعد انتہائی ندامت و شرم محسوس کرتے ہیں، اس لئے کہ یہ عمل غیر فطری ہے۔ جب کہ نر ومادہ اور انسان کے نرو مادہ کے جائز ملاپ پر انزال کے بعد طرفین فرحت و خوشی محسوس کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ فطری عمل ہے۔
بدفعلی کی قانونی اجازت کے مضرات سے معاشرے کو ہر جانب بچانے کے لئے جواں سال مسلمانوں میں دینی و روحانی بیداری پیدا کی جائے، اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے، آخرت کا خوف پیدا کیا جائے، اس بات کو دل و دماغ میں گہرے طور بٹھایا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ وہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طورپر زندگی گزارے اور آخرت کی بازپرس سے بھی چوکنا رہے۔ غیر اسلامی کاموں اور گندی صحبت سے پرہیز کیا جائے۔ عذابِ الٰہی سے کبھی غافل نہیں ہوا جائے ، عوام الناس کو یہ ذہن نشیں کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو نسل انسانی کی حفاظت و بقا اور انسان کے فطری جذبات کی تسکین کے لئے جائز اور مناسب طریقہ ہے جو رب کریم نے اپنے بندوں کے لئے بنایا ہے۔ نکاح شریعت کی نگاہ میں ایک پاکیزہ، ٹھوس، پائیدار اور دیرپا رشتہ ہے، جو دیگر آسمانی مذاہب میں بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ نیز اس کے لئے اسلام کے قوانین اور ضابطے بہت آسان اور دلکش ہیں۔ اسلام سمیت تمام الہامی مذاہب نے نکاح کو دنیوی ضرورت کے ساتھ ساتھ ایک دینی ضرورت اور قربِ الٰہی کا سبب بھی بتایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:جب بندے نے نکاح کر لیا تو اس نے آدھا دین مکمل کر لیا اور باقی آدھا کے لئے وہ اللہ سے ڈرتا رہے۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 286)نکاح کرنے سے انسان اپنی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ گناہوں سے بھی بچتا ہے اور سماج میں عزت کی زندگی گزارتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تمام باتیں لوگوں تک پہنچائی جائیں۔ اصلاحی پمفلٹ بانٹتے جائیں، جلسے منعقد کئے جائیں، نجی مجلسوں اورہوٹلوں، کلبوں میں بھی ان خیالات و نظریات کو عام کیا جائے۔ کمیٹیوں اور انجمنوں، علمائے کرام، دانش ور حضرات اس پیغام کو گھر گھر پہنچائیں۔ اللہ ہم سب کو اس کی طاقت و قوت عطا فرمائے۔ آمین!
09386379632
پن کوڈ 831020 جھاڑ کھنڈ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں