837

بھارت کے لیے بڑا دھچکا. بھارتی ریاست منی پوری کی آزادی کا اعلان اور بھارت کی تقسیم

تحریر : ولید ملک waleedmalikkz@gmail.com
لندن میں بھارتی ریاست منی پور کے مہاراجہ نے اپنے نمائندوں سمیت منی پور کی بھارت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ یامبین بائرن کو منی پور ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ کے طور پرمنتحب کر لیا گیا ہے ۔ علیحدگی کے اس ناگہانی اعلان نے جہاں ایک جانب بھارت کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے تو دوسری جانب قیدو بندکی صعوبتیں برداشت کرنے والے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے امید کی ایک کرن بھی روشن کر دی ہے۔ جس سے عالمی اسٹیبلشمنٹ سمیت اندرونی خلشفار اورمعاشی گراوٹ کے شکار بھارت کے لیے ایک اور پریشانی پیدا ہوگئی ہے جس کے ساتھ ہی بھارت کے سیکورٹی حلقوں میں شدید کھلبلی مچ گئی ہے ۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق مودی سرکار نے منی پور میں آزادی کی جنگ لڑنے والے حریت پسندوں کو کچلنے کے لیے ہزاروں سیکورٹی اہلکاروں کو روانہ کر نے کے ساتھ ساتھ کابینہ کی سیکورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی بلا لیاہے۔ پاکستان دشمن اجیت دول نے تمام بھارتی میڈیا کو آئی ایس آئی کے خلاف پراپیگنڈہ تیز کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے ۔ اور بین الاقوامی فورم پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بھارتی وزارت خارجہ کو بھی متحرک کر دیا گیا ہے کہ منی پور ریاست کی علیحدگی کے اعلان کے پس پردہ پاکستان کا ہاتھ ہے۔
بھارت جو گذشتہ کئی عشروںسے ایک فسطائی ریاست کی شکل اختیار کر تا جارہا ہے جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے اپنی عزت ، جان و مال بچانا تقریباََ ناممکن ہوچکا ہے ۔ جس کے ردعمل میں اس وقت بھارت میں17بڑی علیحدگی کی تحریکوں سمیت کم وبیش پچاس کے قریب علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ جن میں مقبوضہ کشمیر ، خالصتان ، آسام ، ناگا لینڈ، مہارشٹرا، تامل ناڈو، تری پورہ، مغربی بنگال، میزورام اور ارونا چل پردیش جیسی طاقتور علیحدگی کی تحریکیں اپنے عروج پر ہیں ۔ جو کسی وقت بھی ناگا لینڈ و منی پور ریاست کی طرز پر بھارت سے علیحدگی کا اعلان کر سکتی ہیں۔ خیال رہے کہ ناگالینڈ نے اگست 2019کو بھارت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اپنا ایک الگ وفاقی دارالحکومت بنا نے کے ساتھ ساتھ قومی ترانے کا بھی اجرا ءکر دیاتھا۔ راقم پچھلے دو برسوں سے ملک کے مختلف حلقوں میں ببانگ دہل کہہ رہے ہیںکہ بھارت دسمبر 2020 تک بہت سے حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، ان شاءاللہ ۔
جلا وطن ریاست منی پور کی کونسل کے پہلے وزیر اعلیٰ یامبین بائرن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیںہے ۔ دنیا ہمیں الگ ریاست کے طور پر تسلیم کرے اور ہم بہت جلد اپنی الگ ریاست کے حوالے سے ملکہ برطانیہ کو قرارداد پیش کرنے والے ہیں۔ مہاراجہ لیشمبا سانا باو¿ جاہی کو منی پور ریاست کے پہلے حکمران بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے محل کوہیڈ کوارٹربنا لیا گیاہے اسی طرح نئی جلاوطن ریاست منی پورکے پہلے وزیر ، برائے امور خارجہ ودفاع نارنگبام سمرجیت نے بلند آواز میں آزادی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم لندن سے اپنی حکومت چلائیں گے اور اقوام متحدہ سے اپنی ریاست کو تسلیم کروانے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار بھی لائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ بہت سے ممالک ہماری آزادی کو جلد ہی تسلیم کر لیں گے۔
منی پور ریاست کا شمار بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں ( سیون سسٹرز ) میں شامل ریاستوں میں ہوتا ہے جومیانمار کی سرحد کے قریب واقع ہے، جس کی آبادی تقریباََ تین ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ منی پور ریاست کے مہاراجہ نے 27دسمبر 1946کو بھا رت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا ۔ تب بھارت کی انتہا پسند قیادت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے1949 میں بزور قوت منی پورریاست پر ناجائز قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن ریاست کے باشندوں نے بھارت کے اس غاصبانہ قبضے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیاتھا۔ساتھ ہی سیاسی جدوجہد کرنے کے علاوہ مسلح کاروائیوں کا بھی آغاز کر دیا۔ پھر اس وقت سے لیکر آج تک بھارتی سیکورٹی اداروں نے تمام ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ہزاروںکے قریب باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
نریندر مودی نے پاکستان کو جو پانی کی ایک بوند نہ دینے کی گیڈر بھبکی دی ہے، کے جواب میں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ بات پانی کے ایک بوند کی تو ہے نہیں ، اب تو بات پورے بھارت کی ہے ۔ پاکستانی قوم حتمی فیصلہ کر چکی ہے کہ اب اکھنڈ بھارت جیسے فاشسٹ نظریے کو کچلتے ہوئے پورے بھارت پر قبضہ کرنا ہے ۔ مودی جی کو یہ وارننگ بھی پہنچا دو کہ پانی تو کل بھی ہمارا تھا آج بھی ہمارا ہی ہے اور آئندہ بھی ہمارا ہی رہے گا، ان شاءاللہ ۔ناگا لینڈ اور منی پور کی آزادی کے اعلان نے جہاں ایک جانب بھارت کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھی جلد آزادی کی نوید بھی سنا دی ہے ۔ ظلم ظلم ہوتا ہے بالآخر ایک دن مٹ جاتا ہے اور آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں