روزینہ گھر سے بھاگ نکلی!۔ اکیلی نہیں بلکہ چھوٹی بہن ثمینہ کے ساتھ۔
دونوں نہ جانے کب سے اپنے اپنے خوابوں کے شہزادوں کے نشے میں مبتلاتھیں۔ خوشی سے سرشار، یا غموں سے نڈھال،ہر دوصورت میں دونوں بہنیں اپنے اپنے محبوبوں کی داستانیں ایک دوسرے کو ضرورسنایا کرتیں اور جذبات میں باہمی جصہ دار بنتیں۔
یہ کوئی شہر والی روزینہ نہیں تھی ۔ یہ وہ تھی جوکسی دور دراز گاؤں سے تعلق رکھتی تھی ۔ وہ دیہات جہاں شہری سہولتیں کم، ماں باپ کا ساتھ صبح سے شام تک، اور ’’سہانے سپنوں ‘‘ والا ماحول کم ہی سازگار ہوتا ہے۔لیکن پھر بھی ان دونوں نے نہ جانے کب اور کیسے دو محتلف نوجوان لڑکوں سے دوستیاں پال لی تھیں!۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی، کہ دونوں کے پاس پرانے طرز کے سیل فون ضرور موجود تھے۔ بس انہی فونوں پر ،ماں باپ کی نظروں سے بچ کر،وہ دونوں صبح سے شام تک ،اپنے دوستوں سے رازو نیاز کرتی رہتی،ا ور دل شادباد کیا کرتی تھیں !
لڑکے بھی وہ کوئی ارفع و اعلی اور تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ اسی گاؤں کے بس معمولی سے پڑھے لکھے تھے ۔گاہے مچھلیاں بیچتے اور گاہے اپنے باپوں کے ساتھ زمین میں ہل چلاتے تھے۔لیکن نہ جانے کب اورکیسے کیوپڈشیطان کے تیران لڑکیوں کے دلوں میں اتر گئے تھے؟ ۔’’ہیر ‘‘ کو ’’رانجھا ‘‘ اور ’’رانجھا ‘‘ کو’’ہیر‘‘ پسند آگئے تھے!۔دونوں کی دونوں اپنی اپنی ’ہیرکی اسیر‘ ہو کے رہ گئی تھیں! ۔ایک نیا جہان ان کے ذہنوں میں بس رہا تھا۔ لڑکے بھی اپنے ہمرازوں کو چپکے چپکے بتایا کرتے تھے کہ وہ روزینہ اور ثمینہ سے کسی بھی قیمت پر دستبردار نہیں ہوں گے۔
معاملات آگے بڑھتے گئے ، چنگاری شعلوں کی شکل اختیار کرنے لگی ،اور فیصلے کا وقت آن پہنچا۔چنانچہ اس وقت جبکہ والدین اپنی جوان بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے جتن میں مصروف تھے ، روزینہ اور ثمینہ نے طے کیا کہ کچھ بھی ہو،ماں باپ کا لایایا ہوا رشتہ خود پر ہرگز لادنے نہیں دیں گی۔
سرگوشیاں ہوئیں، تبادلہء خیال ہوا، محبوب سے ہدایا ت لی گئیں، اور طے پایا کہ کسی ’’شُبھ گھڑی‘‘ وہ دونوں چپکے سے گھر سے بھاگ کھڑ ی ہوں گی!۔
دو نوجوان لڑکیاں ،دو سگی بہنیں،گھر سے فرار ہوجائیں؟ ماں باپ سے ایک ساتھ بغاوت کردیں؟۔ بات بالکل ناقابلِ یقین لگتی ہے۔ مگرجو انہونی تھی ،وہ ہو کر رہی۔ لڑکیاں اپنے آشیانے سے بھاگ نکلیں !
روزینہ اور ثمینہ نے تین جوڑے ، پانچ چھ سو روپے،اور دستیاب میک اپ کا سامان ، بمعہ موجود کان کے بُندے، اورناک کے ایک دو ہلکے پھلکے لونگ، شاپرس میں رکھے،اور منتظر رہیں کہ کب گھر خالی ہو،اور کب ماں باپ کی بندھی زنجیریں توڑ کے وہ فرار ہو جائیں!
چنانچہ مغرب کا اندھیرا ابھی چھایا ہی تھا کہ دونوں ’’بنجارنیں‘‘ ماں سے کسی پڑوس کے گھر کا کہہ کر نکلیں اورپھر ہلکے و تیز قدم اٹھاتے ہوئے دیہات کے کسی قدر ملگجے گہرے اندھیرے میں دورجاکر کہیں گم ہوگئیں۔ احتیاطاًانہوں نے منہ پر چادریں بھی لے لی تھیں۔برے کام کے لئے منہ ڈھانکنا لازم ٹھہرا تھا!
اُدھر چند چھوٹی موٹی دوکانوں کے پاس دور کہیں ،ان کے’’ نیک دل‘‘ محبوب اپنی اپنی بائیکوں پر موجود تھے۔ منتظر کہ ان کی ’’لال پریاں‘‘ آئیں گی اورانہیں اپنے’’ اڑن کھٹولوں ‘‘پر لے کر وہ کہیں دور نکل جائیں گے!۔ روزینہ اور ثمینہ دونوں ہی کو ان کے مقامات کا پتہ تھا۔ پہنچتے ہی انہوں نے اشاروں اشاروں میں گفتگو کی اور متعلقہ بائیکوں پر سوار اجنبی آشناؤں کے ساتھ نئے سہانے مستقبل کی خاطرمحوِ پرواز ہوگئیں۔ دوموٹر سائیکلیں دور اندھیرے میں چھوٹے چھوٹے ہیولے بناتے ہوئے کہیں غائب ہوگئیں!
آگے جاکر لڑکوں نے بتایاکہ فی ا لحال رات انہیں یہیں کہیں کسی ویران مکان میں گذارنی پڑیں گی۔اس کے بعد ہی کہیں جاکروہ صبح مقامی عدالت میں باقاعدہ میاں بیوی بنیں گے ۔اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک سستا سا وکیل پہلے ہی سے تیار رکھ لیا تھا ۔شہزادیاں تیا ر ہوگئیں۔لگتا تھا انہیں سارے منصوبے کا پہلے سے علم تھا۔
اِدھر جب بہت دیر ہونے لگی تو دیہاتی ماں باپ کو فکر لاحق ہوئی۔ ’’بیٹیاں کہا ں چلی گئیں؟ ۔واپس کیوں نہیں آئیں ؟۔ ایک نہیں دو دو؟‘‘۔ اَدھر اُدھر پتہ کروایا۔مسجد سے اعلان کروایا۔ مگر سب بے سود۔ دو نوجوان لڑکیاں کہیں ایک ساتھ گم ہوجائیں؟، گاؤں کا گاؤں حیران تھا!۔
رات کیسی گذری؟ کچھ نہیں معلوم!۔ لیکن صبح عدالت میں دو الگ الگ جوڑے قانونی و شرعی بندھن میں بندھ کر باقاعدہ میاں بیوی بن چکے تھے۔ جج محترم نے انہیں ’’قانونی‘اور شرعی ‘‘ جوڑوں کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا تھا۔ گنا ہ گار ہو کر بھی روزینہ اور ثمینہ، دو بہنیں ، پاک ،جائز ، اور طیب ہوچکی تھیں!
ادھر گمشدگی کی جو رپورٹ غریب والدین نے درج کروائی تھی، پولیس اس کے باعث ان دونوں جوڑوں کومسلسل تنگ کررہی تھی۔ سکون سے رہنے دینے کی خاطر بار بار رقم طلب کررہی تھی۔’’چائے پانی کا بندوبست کرو یا حدودد کے مقدمے کا سامنا کرو‘‘۔چنانچہ دونوں لڑکوں نے ایک بار پھر عدالت سے رجوع کیا۔ بہنوں نے جج اور دیگر کئی آدمیوں کے سامنے جو بیان دیا اور اخبارا ت نے انہیں جس طرح نقل کیا ہے وہ ہماری بیٹیوں اور والدین کے لیے واقعی قابلِ مطالعہ ہے!۔بیان ہم منِ و عَن نقل کرتے ہیں۔ لڑکیوں نے بغیر کسی جھجک کے عرض کی۔
’’ ہم دونوں بہنوں نے ۳ ستمبر ۲۰۱۷ کو اپنی آزاد مرضی سے گھر سے نکل کر’’ دیدار ملّاح‘‘ اور’’ محمد حسن ملّاح ‘‘(فرضی نام)سے پسند کی شادیاں کی تھیں ا ور اپنے شوہر وں کے ہمراہ رہ رہی تھیں۔لیکن ہمارے والدین اور رشتے دار ہمیں مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے ۔ ہم نے قانونی راستہ اپنایا ہے ۔ہم شرعی میاں بیوی ہیں۔ہمیں اپنی جانوں کا خطرہ ہے۔ عدالت ہمیں تحفظ فراہم کرے ‘‘۔
اخبارات بیان کرتے ہیں کہ ’’بچھڑی ہوئی کونجوں ‘‘ کے ان بیاناتِ حلفی پر عدالت بھی مطمئن ہوگئی ۔ فیصلہ صادر کیا کہ پولیس ان دونوں جوڑوں کو’’ مکمل ‘‘تحفظ فراہم کرے اور کسی جانب سے بھی ہراساں کئے جانے کا سخت نوٹس لے۔
یوں ’’‘روزینہ دیدار ملاح ‘ ‘ اور ’’ثمینہ حسن ملاح‘‘ نے مل کر محبت کی جنگ جیت لی اوروالدین اور پولیس والوں کو شکست اور ہزیمت سے دوچار کیا۔
مگرشکست؟ کیسی شکست ؟ ۔ ماں باپ توشکستہ ہوکرپہلے ہی ر یزہ ریزہوچکے تھے!۔ جیتے جی قبر میں اترچکے تھے۔کسی نے کہا تھا نا کہ
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی ، دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی ، آواز کسی سودا ئی کی !
بس وہی حال ان دونوں والدین کا بھی تھا۔وہ تو زندہ قبر میں اتار دئے گئے تھے۔ لیکن ا ب کیا ہوسکتا تھا؟۔ چڑیاں توکھیت چُگ کر کہیں اور جابسی تھیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعہ آپ نے پڑھا ۔ فرضی نہیں بلکہ ایک گاؤں میں پیش آنے والا حقیقی واقعہ ! ۔ کراچی کے اخبارات نے گذشتہ دنوں ہی اسے شائع کیا۔راقم نے بس کرداروں کے نام ہی اس میں تبدیل کرنے کا گناہ مول لیا ہے ۔ مقصد سب کے یہی گوش گذار کرنا تھا کہ آئیں اور ہم سب مل کر سوچیں اورغور کریں کہ معصوم لڑکیوں کے گھر سے فرار ہوجانے کے دلخراش واقعات اب دیہات اور گاؤں تک بھی کیوں جا پہنچے ہیں؟۔ لڑکی کا فرار کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے!۔معاشرے کے ’’دل جس سے دہل جائیں ، وہ طوفان ‘‘ ،اورکالک جس سے لگ جائے وہ ’’صورتِ حال‘‘ ہے۔دور کسی چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں سہولتیں کم اور مکینوں میں باہمی محبت زیادہ ہوتی ہے،آگ گروہاں تک بھی جا پہنچنے تو پھر سمجھو سب کچھ ڈوب گیا۔
سب کو بیٹھ کرباہمی جائزہ لینا چاہئے،اپنے اپنے گھروں اور اپنی اپنی زیر کفالت اولاد کا! ۔جائزہ لینا چاہئے اپنی بیٹی او ر بہن کی غلطیوں کا!۔سوچیں کہ ان کے ذمے دار کہیں خود ہم تونہیں ہیں؟۔ کہیں خود ہم ہی نے تو انہیں اندھیرے غار میں نہیں دھکیلا ہے؟ ۔
وقت آنکھیں بند کرکے رہنے کا نہیں ، کھول کے رکھنے کا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ۔
جس عہد میں لٹ جائے ’’گھرانوں ‘‘کی کمائی
اس عہد کے’’ والدین‘‘ سے کچھ بھول ہوئی ہے
