864

ویلنٹائن ڈے اور ہماری ذمہ داری

تحریر: حافظ محمد ابراہیم عبد اللہ

ماہ فروری کے وسط میں منایا جانے والا یہ دن ویلنٹائن نامی ایک عیسائی پادری کے نام سے منسوب ہے۔اس دن نفسانی اور شہواتی  محبت کی رسیا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک  دوسرے کو تحفے بھیجتے ہیں،کارڈز کا تبادلہ ہوتا ہے اور محبت کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔مغربی اقوام جو مذہب سے بیزار ہیں،جنہوں نے اسلام کی روشن اور واضح ہدایت و تعلیمات سے استفادہ نہیں کیا اور کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہیں،انہوں نے نفس کی ہر خواہش کی تسکین کے لیے ایسے اور بہت سارے تہواروں کا اہتمام کیا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ویلنٹائن عیسائیت کا علمبردار پادی تھا جس نے عیسائیت پر پابندی  کے خلاف آواز اٹھائی اور کچھ افراد اسی پادری کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو یہ دن مناتے ہیں۔موجودہ دور میں یہ دن غیر مسلم اقوام کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں میں بھی اسی انداز سے منایا جاتا ہے،جو ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ نیو ایئر نائٹ کے جشن کی طرح پاکستان میں یہ دن منانے کی رسم بھی اپنے عروج پر ہے لبرل و سیکولر ذہن کے مالک نوجوان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں یہ دن منانے کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔اس دن مخصوص قسم کے سرخ لباس میں ملبوس ہو کر آتے ہیں۔ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں مخلوط پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس قبیح رسم کو عام کرنے میں الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ یوں ویلنٹائن ڈے پر فحاشی،عریانی اور بے حیائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اگر اس روز تفریح گاہوں کا رخ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حیاء کرہ ارض سے رخصت ہو چکی ہو۔مغربی تہذیب کے اس طوفانی ریلے کے سامنے مضبوط بند باندھنے کی ضرورت ہے ایسے حالات میں اسلام کی روشن اور واضح تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے الحیاءمن الایمان (یعنی حیاء ایمان میں سے ہے)
ان مخصوص دنوں کے دوران علماء کرام اور دینی جماعتوں کو مختلف پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے۔الیکٹرانک،پرنٹ اور شوشل میڈیا پر اپنے بیانات اور تحریروں کے ذریعے فحاشی ،عریانی اور بے حیائی کی پر زور مذمت کرنی چاہیے۔والدین کو بھی اپنے بچوں کے لیے ایسے اداروں کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں دینی و عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کو اخلاق و کردار کی دولت سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے ہو ۔نوجوان نسل جو ایسے زہر یلے کلچر اور تہذیب سے بچانا ہم سب کی زمہ داری ہے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرے گا۔

ماہ فروری کے وسط میں منایا جانے والا یہ دن ویلنٹائن نامی ایک عیسائی پادری کے نام سے منسوب ہے۔اس دن نفسانی اور شہواتی  محبت کی رسیا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک  دوسرے کو تحفے بھیجتے ہیں،کارڈز کا تبادلہ ہوتا ہے اور محبت کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔مغربی اقوام جو مذہب سے بیزار ہیں،جنہوں نے اسلام کی روشن اور واضح ہدایت و تعلیمات سے استفادہ نہیں کیا اور کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہیں،انہوں نے نفس کی ہر خواہش کی تسکین کے لیے ایسے اور بہت سارے تہواروں کا اہتمام کیا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ویلنٹائن عیسائیت کا علمبردار پادی تھا جس نے عیسائیت پر پابندی  کے خلاف آواز اٹھائی اور کچھ افراد اسی پادری کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو یہ دن مناتے ہیں۔موجودہ دور میں یہ دن غیر مسلم اقوام کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں میں بھی اسی انداز سے منایا جاتا ہے،جو ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ نیو ایئر نائٹ کے جشن کی طرح پاکستان میں یہ دن منانے کی رسم بھی اپنے عروج پر ہے لبرل و سیکولر ذہن کے مالک نوجوان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں یہ دن منانے کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔اس دن مخصوص قسم کے سرخ لباس میں ملبوس ہو کر آتے ہیں۔ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں مخلوط پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس قبیح رسم کو عام کرنے میں الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ یوں ویلنٹائن ڈے پر فحاشی،عریانی اور بے حیائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اگر اس روز تفریح گاہوں کا رخ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حیاء کرہ ارض سے رخصت ہو چکی ہو۔مغربی تہذیب کے اس طوفانی ریلے کے سامنے مضبوط بند باندھنے کی ضرورت ہے ایسے حالات میں اسلام کی روشن اور واضح تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے الحیاءمن الایمان (یعنی حیاء ایمان میں سے ہے)
ان مخصوص دنوں کے دوران علماء کرام اور دینی جماعتوں کو مختلف پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے۔الیکٹرانک،پرنٹ اور شوشل میڈیا پر اپنے بیانات اور تحریروں کے ذریعے فحاشی ،عریانی اور بے حیائی کی پر زور مذمت کرنی چاہیے۔والدین کو بھی اپنے بچوں کے لیے ایسے اداروں کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں دینی و عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کو اخلاق و کردار کی دولت سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے ہو ۔نوجوان نسل جو ایسے زہر یلے کلچر اور تہذیب سے بچانا ہم سب کی زمہ داری ہے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرے گا۔

دن نفسانی اور شہواتی  محبت کی رسیا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک  دوسرے کو تحفے بھیجتے ہیں،کارڈز کا تبادلہ ہوتا ہے اور محبت کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔مغربی اقوام جو مذہب سے بیزار ہیں،جنہوں نے اسلام کی روشن اور واضح ہدایت و تعلیمات سے استفادہ نہیں کیا اور کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہیں،انہوں نے نفس کی ہر خواہش کی تسکین کے لیے ایسے اور بہت سارے تہواروں کا اہتمام کیا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ویلنٹائن عیسائیت کا علمبردار پادی تھا جس نے عیسائیت پر پابندی  کے خلاف آواز اٹھائی اور کچھ افراد اسی پادری کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو یہ دن مناتے ہیں۔موجودہ دور میں یہ دن غیر مسلم اقوام کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں میں بھی اسی انداز سے منایا جاتا ہے،جو ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ نیو ایئر نائٹ کے جشن کی طرح پاکستان میں یہ دن منانے کی رسم بھی اپنے عروج پر ہے لبرل و سیکولر ذہن کے مالک نوجوان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں یہ دن منانے کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔اس دن مخصوص قسم کے سرخ لباس میں ملبوس ہو کر آتے ہیں۔ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں مخلوط پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس قبیح رسم کو عام کرنے میں الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ یوں ویلنٹائن ڈے پر فحاشی،عریانی اور بے حیائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اگر اس روز تفریح گاہوں کا رخ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حیاء کرہ ارض سے رخصت ہو چکی ہو۔مغربی تہذیب کے اس طوفانی ریلے کے سامنے مضبوط بند باندھنے کی ضرورت ہے ایسے حالات میں اسلام کی روشن اور واضح تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے الحیاءمن الایمان (یعنی حیاء ایمان میں سے ہے)
ان مخصوص دنوں کے دوران علماء کرام اور دینی جماعتوں کو مختلف پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے۔الیکٹرانک،پرنٹ اور شوشل میڈیا پر اپنے بیانات اور تحریروں کے ذریعے فحاشی ،عریانی اور بے حیائی کی پر زور مذمت کرنی چاہیے۔والدین کو بھی اپنے بچوں کے لیے ایسے اداروں کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں دینی و عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کو اخلاق و کردار کی دولت سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے ہو ۔نوجوان نسل جو ایسے زہر یلے کلچر اور تہذیب سے بچانا ہم سب کی زمہ داری ہے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں