648

کرفیو، مسئلہ کشمیر اور عالمی جغرافیائی تبدیلی

بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو دو ماہ کا عرصہ گذر چکاہے۔حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود مودی حکومت کسی صورت میں بھی کرفیوہٹانے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی بھارت کی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے باوجود انتہا پسند مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی ، کیوں ؟ اس تمام scenarioکو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
شروع دن سے ہرآنے والی بھارتی حکومت کی یہ بنیادی پالیسی رہی ہے کہ اقوام متحدہ یا پھر بھارتی سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ جس سے خطے میں مستقل بنیادوں پر امن قائم ہو ، اس کو نہیں مانا جائے گا۔ دراصل بھارت کی انتہا پسند سیاست کا structureکچھ اس قسم کا بن چکا ہے کہ جہاں امن کے نام پر کوئی بھی بات ہو یا پھر فعل ،قابل قبول نہیں ہے۔ جو اب انتہا پسند بھارتی سیاست اور معاشرے کی ڈاکٹرئن بن چکی ہے۔ ان کے سیاسی گرو گھنٹال یہ حقیقت اچھی طرح جان چکے ہیںجب تک وہ پاکستان اور اسلام فوبیا کو لے کر چلتے رہیں گے وہ بچے رہیں گے ۔ یہ condition ان کے چھپے ہوئے خوف پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے خاتمے کا وقت عنقریب آچکا ہے ۔
جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ انسانی ہمدردی کے تحت یا پھر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نہیں دیا گیا۔ بلکہ جنرل اسمبلی میںوزیر اعظم عمران خان کے دوٹوک مو¿قف اپنانے پر جو بین الاقوامی پریشر بھارت پر آیا تھا ، اس پریشر کو وقتی طور پر ریلیز کرنے کے لیے یہ فیصلہ دیا گیا تھا۔دراصل بھارت سمیت عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اس زمینی حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہو چکا تھا کہ تقسیم کشمیر کا گھناو¿نا منصوبہ کشمیریوں کی قربانیوں اور استقامت کی وجہ سے بدترین ناکامی سے دو چار ہو چکا ہے ۔ یہی وجہ تھی جب سپریم کورٹ سے یہ فیصلہ آیا تو میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ انتہا پسند مودی سرکار کے لیے اس فیصلے کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔کیونکہ قاتل مودی کی اتنی اخلاقی جرآت نہیں کہ کرفیو مکمل یا جزوی طور پر ہٹائے۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کرفیو کا ہٹانا اکھنڈ بھارت کے پرچاروں کے لیے ایک ڈراو¿نا خواب بن چکا ہے ، Death Message بن چکا ہے۔ جس کے ساتھ ہی پورے بھارت کا دھڑن تحتہ ہو جائے گا۔
اسی طرح جس دن سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا ہے اسی دن سے ہی یورپین ، امریکن اور جیوش سوشل، پرنٹ ،الیکٹرونک میڈیا and so whatever every kind of available media سب اس بات پرزور تو دے رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم ہو رہا ہے ، انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، حتیٰ کہ یورپ میں کشمیریوں کے حق میں تسلسل کے ساتھ مظاہرے بھی ہو رہے ہیں جن کو وہاں کا میڈیا کسی حد تک کوریج بھی دے رہا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وہاں کے میڈیا نے آج تک مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانے کاذکر نہیں کیا۔ اُن کے دلوں میں کیاخوف ہے ؟ کیا پریشانی ہے ؟اُن کی کیا مجبوری ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کسی صورت میں بھی کرفیو ہٹانے کے حق میں سنجیدہ نہیں ہے۔
بھارت سمیت عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اس زمینی حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ جس دن بھی یہ کرفیو ہٹایا گیا، کشمیری نوجوانوں کا یہ آتش فشاں ایسا پھٹے گا، ایک ایسا لشکر نکلے گا جو پورے بھارت اور صہیونی ریاست سمیت عالمی اسٹیبلشمنٹ کے تما م منصوبوں کو لپیٹ میں لے کر انہیں ملیا میٹ کر دے گا۔جس سے بھارت سمیت دنیاکا جغرافیائی نقشہ یکسر بدل جائے گا۔
لیکن جو بات پاک سیکورٹی اداروں اور خصوصی طور پر مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والی جہادی تنظیموں کی قیادتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ گریٹراسرائیل کے حصول کے لیے جب سرزمین شام میں آخری راو¿نڈ شروع کیا جائے گا تو عین اسی وقت سعودی عرب میں عرب بہاریہ کو لانچ کیا جائے گا یا پھر ایرانی ملا حکومت کے ذریعے سعودی عرب پر چڑھائی کر دی جائے گی۔ جبکہ اسی دوران یا پھر اس سے چند دن پہلے بھارت کو پاکستان کے ساتھ ایک بڑی جنگ یعنی Big War میں الجھا دیا جائے گا تاکہ پاکستان کو engage رکھ کر مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کے گھناو¿نے منصوبے کو پایہ تکیمل تک پہنچایا جا سکے ۔ بار بار کہہ رہا ہوں کہ یہ سب Events بہ یک وقت ہوں گے۔وقت آگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والی جہادی تنظیموںکی قیادتوں کو اس تمام بین الاقوامی تناظر میں اپنا vision ، اپنی سوچ ، اپنی strategic depthاوراپنی فکر کو وسعت دینا ہو گی ۔ کیونکہ ان کے پاس وقت بہت مختصرہے ۔ انہوں نے جو کچھ بھی کرنا ہے اس بڑی جنگ Big War کے شروع ہونے سے پہلے پہلے کرناہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں