رضی الدین سید۔کراچی
اس سال جب ہم نئے عمرے کی خاطر سعودی عرب گئے تو دونوں حرمین میں خصوصاََ، اور تمام سعودیہ میں عموماَ ،زائرین کا بے پناہ اژدہام دیکھ کر یکدم خیال گونجا کہ ایسی ہی اجازت اگر مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ کی زیارت کی بھی حاصل ہوتی ،اگر مسلمانوں کو وہاں بھی جانے کی اجازت ہوتی تو سماں کس قدر مختلف ہوتا!۔ لاکھوں مسلمانوں کا ہجوم وہاں کابھی اسی ذوق و شوق سے سفر کر رہا ہوتاکیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ خصوصی مسجد وہیں موجود ہے۔ نبی علیہ الصلوٰة والسلام نے جن تین مسجدوں کی جانب اجرو ثواب کی خاطر سفر کرنے کی ہدایت کی ہے، مسجد اقصیٰ انہی میں سے ایک ہے۔
حرمین شیریفین میں بیٹھا میں سوچتا رہتا تھا، اوراب بھی سوچتا ہوں کہ دنیا بھر کے مسلمان اگرچہ یہاں ہر روز، ہر سال مسجد حرام اور مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب ہجوم در ہجوم لپکے چلے آتے ہیں، مگر انہیں شایدکبھی خیال بھی نہیں آتا کہ زمین پر ایک اہم مسجد اور بھی پائی جاتی ہے جس کی ایک باجماعت نماز کے اجر وثواب کی مقدارپچاس ہزارنمازوں کے برابر ہے،اور جس میں عبادت کی تمنااور خواہش ان کے دلوں میں لازماََبسی ہونی چاہئے۔میرا حال بھی کچھ اس سے الگ نہیں تھا۔ میں نے بھی اس سے قبل نہیں سوچاتھا کہ ان دومساجد کی مانند مسجد اقصیٰ بھی نہ جانے کب سے ہماری آمد کی منتظر ہے ! ۔کب سے اپنے صحنوں اور دالانوں میں ہمارے قدموں کی چاپ سننے کی تڑپ رکھتی ہے!۔ لوگ سعودیہ آتے ہیں، لاکھوں کا خرچ برداشت کرتے ہیں، طواف و عبادات میں ایام گذارتے ہیں، زیارات سے مستفید ہوتے ہیں ،گھر والوں کے لئے تحفے تحائف خریدتے ہیں ، اور پھر واپس اپنے ملکوں کو لوٹ جاتے ہیں۔لیکن اس تمام عرصے میں ،ان تمام ایام میں،کسی کے دل میں اس مقدس مسجد کے سفر کا تصور شاید ہی کبھی آتا ہوگا ۔ کبھی نہیں سوچتے ہوں گے کہ سالہا سال سے ہماری یہ مسجد کیسی اداس لگتی ہوگی؟ اور اپنے عبادت گذاروں کو کس بے بسی سے ڈھونڈتی پھرتی ہوگی؟ ۔مگر بس اپنے مقامی فلسطینیوں ہی کو دیکھ دیکھ کر رہ جاتی ہوگی!۔
سوچتی ہوگی ایک سال گذرا ، دو سال گذرے، پھرچالیس پچاس سال مزید گذرے ،مگر کوئی سعودی، کوئی انڈونیشی، کوئی کویتی، کوئی شامی، کوئی پاکستانی،کوئی تاجکستانی یہاں قدم رکھنے کو نہیں آیا۔ کسی کو کوئی بے قراری نہیں ہے ، کوئی میرے لئے بے چین نہیں ہے !۔ سب ہی نے مجھے چھوڑ رکھاہے، سب منہ موڑ کر سوگئے ہیں۔1948ء کے بعدکروڑوں مسلمان دنیا میں آئے اورچلے گئے۔ لیکن چند ہزارکے علاوہ کسی کو بھی میری سرزمین پر آنا نصیب نہیں ہوسکا۔میری سرزمین کی طرف سفر کی نبوی ہدایت شاید ہی کسی کے دل کو جنجھوڑسکی ہو گی ۔ اب یہاں صر ف یہودیوں کا راج ہے ۔انہی کے ظلم و ستم کی بادشاہت ہے۔ انہی کے ناپاک قدم ہیں جوجب چاہتے ہیں مجھ پر پڑجاتے ہیں۔جوتوں سمیت وہ مجھے روند کر رکھ دیتے ہیں۔ برباد کردینے کا عزم رکھتے ہیں۔ زمین پر میری موجودگی ان کے دلوں پر برچھا برسارہی ہے۔ بس چلے تو وہ مجھے کل ہی کاتوڑکر نعوذباللہ زمین بوس کردیں۔
میں سوچتاہوں اگر یروشلم آزاد ہوتا، اگروہاں بھی مسلمان آزادی سے آجارہے ہوتے ،ارض مقدس پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ نہ ہوتا،تو مقامی فلسطینیوں کو ان سے کتنی تقویت حاصل ہوتی ، ان کی معیشت کتنی آگے بڑھ چکی ہوتی، کتنے عالمی طیارے یروشلم میں ہرروز اتررہے ہوتے، کتنے دلوں میں دین کا نیا ولو لہ جوش مار رہا ہوتا، کس قدر سڑکیں وہاں کی کشادہ ہوچکی ہوتیں، اورکس قدر نئے پل اور نئی عمارتیں بن چکی ہوتیں ؟۔ اگر یہ مسجد آزاد ہوتی توزائرین کے سفر کی خاطر وہاں کے بھی ویزے لگ رہے ہوتے، ہماری گلیوں اور گھروں میں حجازکے ساتھ مسجد اقصیٰ جانے کی بھی صدائیں آتی رہتیں۔لوگ فخریہ کہتے کہ اس بار حجاز کے ساتھ ساتھ ہم فلسطین بھی گئے تھے جہاں جاکرنہ صرف فلسطین کی گلیوں میں گھومے پھرے،نہ صر ف گنبد صخرا کی زیارت کی ،بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلا م کے روضہءمبارک کا بدیدار بھی کیا اور” جبل ثور“ کی مانند داﺅد علیہ السلام کے” جبل ِصیہون“ پر بھی چڑھے۔ دنیا بھر کے ٹریول ایجنٹس حج و عمرے کے ساتھ فلسطین کے پیکیج بھی مہیا کرتے۔ کوئی وہاں سات دنوں کے لئے سفر کا ویزہ لگواتا اور کوئی بیس دنوں کے لیے سفر کی نیت کرتا!
مگر ایک سناٹا ہے ۔ خاموشی ہے۔ نہ عام مسلمان ہی کے دل میں اس گھر تک جانے کا کوئی احساس ابھرتا ہے، نہ کوئی” محتاط خطیب “ ہی لوگوں کو قبلہ اول کی اہمیت گنواتا ہے، اورنہ کوئی مسلم وعرب حکومت مسجد اقصی ٰ کی بازیابی کے لئے تڑپ رکھتی ہے۔بلکہ تمام کی تمام عرب حکومتیں تو اب اسرائیلی صیہونیوں سے مصالحت کی راہ پر چل نکلی ہیں ۔جبکہ دیگر غیر عرب مسلم ممالک کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔ جیلوں اور تعذیب خانوں میں بھرے ہوئے ہزاروں مظلوم فلسطینیوں ،جوانوں اور عورتوں کی خاطر نہ مشرق سے کوئی صدا اٹھتی ہے اور نہ مغرب سے کوئی پکار دی جاتی ہے ۔ عالمی فورم پربھی سناٹاہے ۔وہاں بھی کوئی الفاظ
ان کے حق میں ادا نہیں کئے جاتے ۔
یہی سب کچھ دیکھ دیکھ کر ” مسجد اقصیٰ روتی ہے!۔“پوچھتی ہے ’کےا کسی کے دل میں میرے لئے کوئی تڑپ نہیں ہے ؟۔ کسی کے دل میں میرے لئے اٹھنے کا ولو لہ نہیں ہے؟ کیا دنیا بھر کے مسلمانوں کے قدموں کی چاپ سے میںسدا ہی محروم رہوں گی؟۔کیا چھپن مسلم ممالک میں سے ایک بھی صلاح الدین ایوبی پیداکرنے کی ہمت نہیں رکھتا؟۔“۔مگر کون ہے جو مسجد ِ اقصی کے ان سوالوں کے جواب دے؟۔ ہاں بس ایک ہی جواب رہتا ہے کہ۔۔”امت ِمسلم سوتی ہے!“۔ عصائے موسیٰ بغل میں ہے لیکن جھوٹے جادوگروں کے رعب سے حال برا ہوچکا ہے!