رضی الدین سید۔کراچی ۰۳۰۰ ۔۲۳۹۷۵۷۱
مسلم دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتاہے جو خود کو ’’اہلِ قرآن ‘‘ کہلواتا ہے ۔ بظاہر یہ ایک اچھا اورپرکشش نام ہے ۔ اہل قرآن کے نام سے بھلا کون مرعوب نہیں ہوگا؟ ۔ اگر کوئی اہل اللہ ہوسکتا ہے ، اہل ِ باصفا ہوسکتا ہے ، اہل حدیث ہوسکتاہے ، تو اہلِ قرآن کیوں نہیں ہوسکتا؟۔لیکن فی الاصل یہ نام ایک دھوکا ہے ،ایک جعل سازی ہے ۔ قارئین کو اس وضاحت سے کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے ۔ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے ۔ دنیائے اسلام کے تمام علما نے ان لوگوں کو اسلام سے خار ج کیا ہےاورقرار دیا ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس اصطلاح سے وہ دھوکا دیتے اور ان کا ایما ن خرا ب کرتےہیں۔
اہل ِ قرآن ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ قرآن پر باقاعدہ عمل کرتے اور اس کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ ہے کہ و ہ اس نام کو استعمال کرکے خود قرآن کے خلاف ہی عمل کرتے ہیں ۔ صاف بات یہ ہے کہ اگر کسی کو دھوکا دینا ہو تو اسے اپنا نام اور حلیہ بھی اسی فرد کی مانند بنانا ہوگا ۔ بالکل اسی طرح جیسے لارنس آف عریبیا نے جبے ، داڑھی ،اور عمامے کےظاہری حلیے کے ساتھ عربوںکو ترکوں سے بیزارکرنے کا منفرد کارنامہ انجام دیا تھا ۔عرب اور ترک دونوں مسلمان تب خوشی خوشی آپس میں جنگوں میں مصروف ہوگئے تھے ۔
اہل قرآن کا اندرونی پوشیدہ مطلب یہ ہے کہ ’’ہم احادیث کو شریعت نہیں مانتے ۔ ہم صحابہ کرامؓ کو قابل ِ اتباع نہیں تسلیم کرتے ۔ نبی ﷺ کے افعال و اقوال تو بس ان کے اپنے دور تک کے لئے ہی تھے ۔ ان میں سے بھی بعض احکام کا تعلق تو بلکہ محض اس دور تک کے قبائل ہی سے تھا۔ محمد ﷺ بس ایک پیغام بر تھے جواللہ کا قرآن پہنچا کر واپس چلے گئے ۔ دنیا اب نئے دور میں داخل ہوگئی ہے ۔ مسائل وہ نہیں رہے جو اس دور کے تھے ۔ پردہ آج اس اہتمام کے ساتھ کیسےکیا جاسکتا ہے جیسا ہمارے ہاں رائج ہے ۔ سود کو بالکلیہ حرام قرار نہیں دیاجاسکتا ۔ پھر تو عالمی اقتصادیات ہی خطرے میں پڑ جائیں گی ۔ نماز کا مطلب وہ ہرگز نہیں ہے جو عام طورپر لوگوں نے اخذ کرلیا ہے ۔ وہ تو بس سادہ سی دعائں مانگنے کا نام ہے ۔ نہ قبلہ رخ ہونا، نہ خاص شکل میں ڈھلنا، اورنہ مسجد میں پہنچنا۔ جو روزے ہیں ، ا س دور میںان کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں سابقہ دور تک تو ان کا رواج ضرور ہی تھا ۔ لیکن اب اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ عام لوگ قرآ ن کو جس طرح احادیث اور فقہ کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، قرآن کا وہ منشاہی نہیں ہے ۔ اسےکسی اور مواد سے سمجھنے کی بجائے خود قرآن ہی سے سمجھنا چاہئے کیونکہ وہ اپنی وضاحت خودہی کرتاہے ۔ اگر ایک آیت میں کسی بات کامطلب سمجھ میں نہیں آتا تو آگے کسی اور مقام پر اس کی مزید وضاحت مل جائے گی وغیرہ ‘‘۔
مسلمانوں کو گمراہ کرنےکے لئےان کے عقائد کی چند مثالیں انہی کے شائع کردہ ایک کتابچے سے پیش کی جاتی ہیں۔
’’قرآنی علم ِتجوید ایک بے کار بات ہے۔ امام زہری ؒ حضرت عائشہ ؓ کے واقعہ افک کی روایت کے خالق ہیں۔قرآن کی سات قراتیں محض جھوٹ ہیںاور قرآن کی تحریف کے لئے ایجاد کی گئی ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے جب دیک صحابی کو کسی دوسری قرات میں تلاوت کرتے ہوئے سنا تو ان کے ہاتھ باندھ کر نبی ﷺ کے پاس لے گئے اور شکایت کی ۔پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ قرئا ت سات طرح کی ہوتی ہیں ۔ اس لئے جس طریقے سے تم پڑھتے ہو، و ہ بھی صحیح ہے۔ اور جس طریقے سے ان صاحب نے پڑھا ہے ،وہ بھی صحیح ہے‘‘۔ اہل قرآن کہتےہیں کہ یہ حدیث ہی غلط ہے ۔ ان لوگوں کے نزدیک سات قراتیں قرآن کے دشمنوں کی سازش ہے ۔ قرآن کی تفسیر لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ دشمنانِ اسلام نے قرآن حکیم کو امت سے چھیننے کےلئے رسول للہ ﷺ کے نام کی طرف منسوب کرکے علم حدیث ایجاد کیا جس کے اصل بنانے اور گھڑنے والے ’وضّاعین‘ خود کو امام کہتےہیں ۔ ان دشمنانِ اسلام نے اس قسم کی جعلی حدیثیں بنائیں کہ حضور ِ اکرم ﷺ ان پڑھ تھے ۔ سامراج نے سوچا کہ قرآن تو ہماری جان نہیں چھوڑے گا ۔ کیوں نہ ہم اپنے بزرگوں کے کئے ہوئے کام (بناوٹی حدیثوں ) کی پٹاری کھول لیںکہ رسول اللہ کا داماد بڑا دولت مند تھا۔اس کا لقب غنی تھا ۔ صوم کے شروع کرنے کے لئے سارے قرآن میں سحری کے وقت کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے اور اختتام کے لئے مغرب کے وقت کا بھی کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
’’حضرت آدم علیہ السلام کے لیے جو یہ آیت آئی ہے کہ ۔۔۔ فلا تقربیٰ ھٰذا ہا الشجرۃۃ ۔۔۔ تو اس میں درخت سے مراد اصلی درخت نہیں بلکہ دنیا کا استحصالی نظام ہے ۔‘‘ (حوالہ کتاب ’ قرآنِ مظلوم کی فریاد‘۔از عزیزاللہ بوہیو۔ شائع شدہ نوشہرو فیروز،سندھ ۔ ان محترم سے میری ملاقات بھی اتفاقاَہو گئی تھی۔ اورانہی نے یہ کتابچہ مجھے دیا تھا ۔ عمرِ عزیز ان محترم کی اس وقت بھی ساٹھ سال سے کچھ زائد ہی تھی ۔سید )
یہ لوگ عید ِ قرباں کو بھی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ جانور ذبح کرنا محض دولت کا زیاں کرنا ہے ۔ یہی لوگ ہیں جو نعوذباللہ حضرت عائشہؓ کی ۹ یا ۱۰ سال کی عمر میں شادی کو بھی ایک احمقانہ خیال تصور رکرتے ہیں ۔ اس موقع پر یہ مثال تو نہیں پیش کرنی چاہئے ۔ لیکن ان لوگوں کامنہ بند کرنے کی خاطر بدرجہ مجبوری پیش کی جارہی ہے ۔جنگ کراچی نے ۲۷۔۷۔ ۲۰۱۷ کو ایک خبر شائع کی تھی کہ بھارت میں ایک دس سالہ بچی کو حمل ٹھہر گیا ہے اور اب اس تاریخ تک وہ چھ ماہ کی حاملہ ہوچکی ہے ۔ بد طینت لوگوں اور عام افراد کے ذہنوں کو خراب کرنے والوں کے دلائل اس خبر سے خود ہی غلط ثابت ہورہے ہیں ۔ یادرہے کہ یہ کوئی نبی ﷺ کے دور کا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس موجودہ روشن اکیسویں صدی کا واقعہ ہے۔
احادیث کو یہ لوگ اس لئے نہیں مانتے کہ اس سے وہ بے حساب شرعی بندھنوں میں بندھتے ہیں ۔ اورکسی شرعی نظام میں بندھنا انہیں راس ہی نہیں آتا ۔ وہ بس جانوروں ہی کی سی زندگی گذارنا چاہتےہیں ۔ دینی اور الہامی قواعد و قوانین کو تسلیم کرنےسےا نکار کرتے ہیں ، بلکہ ان کا مذا ق اڑاتےہیں ۔ لیکن دنیاوی قوانین پر ان میں کوئی بے بھی چینی نہیں پائی جاتی ۔ تھانے کے قواعد و ضوابط کوبھی وہ مملکت کے نظم و ضبط کے لئے لازمی سمجھتے ہیں ۔ پاکستان میں ان لوگون کے نام اہلِ قرآن، پرویزی، احمدی، اورمنکرین سنت ہیں، فی زمانہ جن کے سرخیل جاوید احمد غامدی ہیں ۔ ان کے فلسفے ایلیٹ کلاسز کو بہت پسند آتےہیں ۔ مجبوراََ تو یہ طبقہ اسلام کو پسند کرتاہے لیکن اندر سے اسے اس کے ضوابط پر عمل کرنے میں شرم و حیا محسوس کرتا ہے ۔’’دنیا کیا کہے گی؟‘‘،یہ جملہ ان کی زبانوں پر ہمیشہ چڑھا رہتا ہے جسے غامدی صاحب کی تحریر و تقریر آگ دیتی رہتی ہے ۔ وہ دین کے اندر بھی رہنا چاہتے ہیں اور دین سے باہر بھی رہنا چاہتے ہیں ۔’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ کی سی کیفئیت میں گھر ے رہتے ہیں ۔
سو ان ’’اہل القرآن ‘‘ کے فلسف ے پر اگر کوئی چلے اورساحرانہ گفتگو سے ان کے جال میں پھنس جائے تو یقین کرلینا چاہئے کہ اس نے اپنا موجودہ کمزور سا ایمان بھی فروخت کردیا ہے ۔ محض قرآ ن پر عمل کرنے کے نظرئے کا مطلب اس کے سوا اور کیاہے کہ ہم نے لاکھوںکی تعداد میں موجود ذخیرہ احادیث کو دریا برد اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین سے تعلق توڑ لیا ہے ۔ اس کا دوسر ا مطلب یہ بھی ہے کہ آخرت میں ہم اللہ تعالی ٰ کے پاس بالکل خالی ہاتھ جائیں گے۔
آج کےد ور کے یہ فتنے سب کے سب سراب ہیں ۔ قادیانیت ۔ ۔احمدیت ۔۔ پرویزئیت ۔۔ وطنیت ۔۔ انکارِ حدیث ۔ ۔داعش ۔۔ اور مہدیت ۔۔ ساری مسلم دنیا سے زیادہ پاکستان ہی ان تمام فسادات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جہاں نہ کوئی قانون ہے، نہ آئین ہے، اور نہ امن و امان ہے ۔ ایک چراگاہ ہے جہاں جس کا دل چاہے ریوڑ لئے اندر تک گھس آتاہےاور کَلّہ گاڑ کے بیٹھ جاتاہے۔
نبی ﷺ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں واضح طورپر فرمایا تھا کہ :’’ میری امت میں سے کچھ لو گ ہوں گے جو قرآن کی تلاوت کریں گے ۔ لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے ‘‘۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ میری امت میں سے کچھ لوگ ہوںگے جو قرآن کی تلاوت کریں گے ۔لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائی گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے ۔ اللہ کی مخلوق میں وہ سب سے بدترین ہوں گے ‘‘۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’قربِ قیامت میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جو جوان ہوں گے لیکن بے وقوفی کی باتیں کریں گے ۔ لوگوں کو ان کی باتیں بہت بھائیں گی ۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ سوجو کوئی انہیں پائے ، قتل کردے ۔ کیونکہ ان کے قتل پراللہ اسے بہت اجر دے گا‘‘۔(ابنِ ماجہ ۔ حدیث نمبر بالترتیب ۱۷۱، ۱۶۸،اور ۱۷۰) ۔
بخاری شریف میں بھی ایسی ہی ایک روایت موجودہے ۔ فرمایا کہ ’’تم میں سے ایک ایسی قوم ظاہر ہوگی کہ ان کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو ،اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے‘‘۔ اس کے آگے پھروہی الفاظ ہیں جو اوپر کی دیگر احادیث میں ارشاد کئے گئے ہیں۔ (بخاری کتاب ’فضائل القرآن‘) ۔ایک اور موقعہ پر آپ نے وضاحت کی کہ ’’جو شخصٓ میری سنت سے منہ موڑے ، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘(مسلم و بخاری)
