رضی الدین سید۔ کراچی
مسلم دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، طویل عرصے سے نہ صرف یہ کہ لا ینھل ہے بلکہ شدت میں اس کی اضافہ ہی ہورہا ہے۔لاکھوں مسلمانوں کا خون بہہ چکا،اور لاکھوں لوگ معذور ہو کر رہ گئے لیکن جنگ روکنے کا کوئی بھی لائحہء عمل اقوام عالم کے پاس موجودنہیں ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے مسلم دنیا کے لئے جنگیں ہی مقدر کردی ہیں۔کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں ہے جسے عیسا ئیو ں اور یہو دیو ں کی جانب سے مقتل نہیں بنا دیا گیا ہواورعمارتیں جس کی کھنڈرنہ کردی گئی ہوں۔ان کا معاشرہ گہری سازش کے تحت اخلاق باختہ بنادیا گیا ہے، معیشت خاک میں ملادی گئی ہے، خاندان کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے، حکمران بے حس کردئے گئے ہیں،اورتعلیم کا ستیاناس کر دیا گیاہے۔
چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ ان تمام سازشوں کے پس پردہ بدنامِ زمانہ یہودی گروہ رہے ہیں۔ اقوامِ عالم میں وہی ایک ایسی قوم رہی ہے جسے سب سے چھوٹی اقلیت گردانا جاتاہے۔ سات ارب کی کل عالمی آبادی میں محض ڈیڑھ کروڑ!۔ حیرت انگیزطور پر اپنی دوہزار سالہ تاریخ میں یہودی کبھی دو کروڑکی تعداد تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ لیکن تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے جنگ و جدل اور قتل و خونریزی میں سب سے زیادہ حصہ اسی چھوٹی سی اقلیت کا ہے ۔ جنگیں در اصل یہودیوں کی کھیتیاں ہیں جن سے وہ دو طرفہ فیض ا ٹھاتے ہیں۔ ایک طرف تمام معصوم انسانیت کو قتل کرتے ، اور دوسری طرف بھاری و مہلک ہتھیاروں کی فروخت سے بینک بیلینس بڑھاتے ہیں ۔ یہ خیال کہ ’’بے رحمی کے ساتھ انسانوں کاخون بہانا ان کا دل پسند مشغلہ ہے ‘‘ ہمارا نہیں بلکہ مغربی دانشوروں کا ہے ۔ آئن اسٹائن بھی ان ہی میں کا ایک سنگ دل فرد تھا جس نے دنیا کا مہلک ترین اور بھاری ہلاکت کا ہتھیا ر ایٹم بم ایجاد کیا تھا اور پھر جیتے جا گتے دو جاپانی شہروں کوآنا فاناً موت کی ابدی نیند سلادیا تھا۔ یہودیوں کانظریہ ہے کہ دنیا کی قومیں ہیں ہی اس قابل کہ انہیں زمین سے نیست و نابودکردیا جائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا تخلیق ہی صر ف ان کی خاطر کی گئی ہے ، اس لئے کسی بھی دیگر قوم او ر مذہب کو یہا ں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔
ہمارے اپنے مقدس وطن میں بھی اعلیٰ سرکاری مغربی وفود ا ور آئی ایم ایف کے نمائدگان کی آمدو رفت جو صبح و شام لگی رہتی ہے ، ان میں نہ جانے کتنے چہرے خود صیہونیت کے علمبرداروں کے ہیں !۔یوں کہنے کو تو ہمارے تعلقات اسرائیل سے قائم نہیں ہیں ، اور ہمارے پاسپورٹوں پر اسرائیلی سفر ممنوع بھی ہے ، لیکن فری میسن یہودی افراد کا ً ان غیر ملکی وفود کی شکل میں یقینا ہماری پاک سرزمین کولگاتار روندتے ہی رہتے ہوںگے !۔
’’فی بالغ فرد فی ووٹ ‘‘ کا دلکش اصول جس پر ایک بڑی دنیا عمل پیرا ہے ،کم از کم تیسری ، بلکہ مسلم دنیا کے لئے تو وہ گہرے مسائل ہی کا سبب بنا رہا ہے۔ اس طرزِ جمہوریت میں سروں کو محض گننے کی ضرورت درپیش رہتی ہے، اس سے قطع نظر کہ رائے دہندہ کس ذہنی و علمی مرتبے کا حامل ہے!۔ جو غیر تعلیم یافتہ دیہاتی فرد ہے ، ملک کی تقدیر بدلنے میں اس کا بھی ایک مساوی ووٹ ہے ،اور جو اعلیٰ دینی یا علمی شخصیت ہے، اس کا بھی ایک مساوی ووٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طریقہ کار کے تحت کوئی بھی قوم اپنے اعلیٰ مدارج تک نہیں پہنچ سکتی!۔ پاکستان ، مصر، لیبیا، شام ، اور اردن وغیرہ، غرض ہر مسلم ریاست کی حد تک اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ صیہونیوں کی متعارف کردہ یہ جمہوریت ہمارے لئے سراسر سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ کھیل بنی رہی ہے ۔ نتیجے میں عوام کے حصے میں ۱۹۴۷ سے اب تک گذشتہ سرسٹھ سالوں میں سوائے غربت، محکومی، اور ملک و قوم کی بربادی کے بھلا اور کیا ہاتھ آ یا ہے؟ ۔ پاکستان نے گذشتہ ۷۰ سالوں میں چھوٹے بڑ ے اور ضمنی کم از کم تیس انتخابات تو دیکھے ہی ہوں گے مگر افسوس کہ اس کے باوجود خودعوام بھی اس بارے میں پختہ نہیں ہوسکے!۔ سارے عرصے میں ان کا ذہن وہی کچا اور بہک جانے والارہا ہے ۔ اوریہی وہ نام نہاد جمہوریت ہے جس نے مصر میں چند سال پہلے سو فیصد منتخب عوامی جمہوری حکومت کو محض ایک سال کے عرصے میں چلتا کردیاتھا۔ جرم کیا تھا ؟ وہی کہ نئے آنے والے، ملک میں رحمتوں اوربرکتوں والا دین نافذ کرنے کا پروگرام رکھتے تھے ۔ یہی عمل وہ اس سے پہلے الجزائر اور فلسطین میں بھی کرچکے تھے۔ ہاں جمہوریت کو ا گر اس کے لغوی و عملی معنوں میں اختیار کیا جائے تو شاید امت مسلمہ کوکچھ مفید حل حاصل ہو سکیں ۔ مگر جس کے لئے کسی بھی ملک کے مسلم عالی مرتبت و ذی وقار صاحبانِ اقتدار کبھی تیار نہیں ہوتے۔
قوام ِ متحدہ کی مانند مسلم ممالک کی تشکیل کردہ معروف اسلامی تنظیم ’’او آئی سی ‘‘Organization of Islamic Countries بھی محض ایک فدویانہ ومایوسانہ ادارہ بنی رہی ہے ۔ تمام عالم اسلام مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا یا جاچکا ہے لیکن ا دارے کی تن آسانیاں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہونے پاتیں ۔ اس کے اندر وہ جراء ت ِرندانہ ہی مفقود ہے جو کسی عالمی طاقت کو چیلنج کرنے کے لائق بناتی ہے ! ۔ لازم ہے کہ مسلمان اس تنظیم سے جان چھڑائیں اوراپنے اسی قدیم طرزِ خلافت کودوبارہ بحال کریں جس سے انہیں کبھی عالمی قوت حاصل ہوئی تھی اور جو آج بھی جہانِ عالم میں ان کی سربلندی و کامرانی کا سبب بن سکتی ہے۔
٭ایک خلیفہ ، ایک پرچم، ایک دارالحکومت
ایک خلیفہ، ایک پرچم کا ہمارا قدیم نظام، اس دور کے تمام منتخب خلیفہ کو کئی مسلم ممالک (ولایات ، صوبوں ) کی متحدہ قوت فراہم کرنے کا سبب بنا رہا تھا جس کی دسترس میں امت مسلمہ کے تمام مجموعی وسائل تھے۔ دولت ِاسلامیہ کے پاس آج بھی ا لحمد للہ صرف پیٹرول ہی نہیں بلکہ دنیا بھرکے ہر قسم کے وسائل سونا، چاندی ،تانبا، کوئلہ، نمک، مینگنیز، گیس، نوجوان افرادی قوت، دریاو سمندر، سنگ مرمر ، اور یاقوت وغیرہ موجود ہیں ۔ کسی ایک ملک میں وہ وسائل (معدنیات ) اگرکم ہیں تو دوسرے مسلم ملک میں وہ بافراط موجودہیں۔ چنانچہ اگر وہی خلافت یہاں زمین پرایک بار پھرقائم ہوجائے تو دنیا بھر کے سب سے بڑے ریگستان ، دریا، پہاڑ، سمندر، میدان، ا ور آسمان مسلم امہ کے پاس بیک وقت مجتمع ہوجائیں گے جو کسی ایک مملکت نہیں بلکہ خلافتِ اسلامیہ کا مشترکہ ورثہ ہوں گے ۔ ہر ولایت (صوبے ) سے خلافت کے صدر مقام میں اس کے معاشی حصے پیہم لدے چلے آرہے ہوں گے ، جیسا کہ خلیفہ ہارون الرشیدا ور دیگر خلفا ء کے دور میں ہو ا کرتا تھا۔ خلیفہ نے اپنے اوپر سے بن بارش گذر جانے والے بادلوں سے مخاطب ہوکر ایک بار ْاعتماد سے کہا تھا کہ ’’ بادلو،تم چاہے جہاں برسو، لیکن یاد رکھو کہ تمہارا خراج پلٹ کر بغداد ہی میں آئے گا‘‘۔ اور جیسا کہ کبھی عباسی خلیفہ معتصم باللہ نے ایک خاتون کی پکار پر بے ساختہ جواب دیا تھا کہ ’’لبیک،لبیک۔میں آیا،میں آیا‘‘۔اور پھر غاصب فرنگی مملکت کو اس نے مکمل اپنے قبضے میں لے لیاتھا ۔ واضح رہنا چاہئے کہ آج کے شام و عراق و ایران جیسے بڑے وسیع ممالک بھی کبھی خلافت ِ اسلامیہ کے محض صوبے ہواکرتے تھے ۔متحدہ خلافت ِاسلامیہ کے وسیع و عریض لامتناہی حدود اربعہ سے کفر کی بڑی بڑی طاقتیں بھی تھرایا کریں گی جیسا کہ وہ ماضی میں کبھی ہم سے کانپ جایا کرتی تھیں ۔کوئی یقین کرے گا کہ بقول عیسائی موئرخ فلپ کے حتی ،۱۷۹۰ء کے لگ بھگ امریکہ کو بھی لیبیا کو خراج دینا پڑا تھا۔ (ہسٹری آف عربس)۔اور ان پرا ز خود ہی لازم ٹھہرے گا کہ ہر قومی و بین الاقوامی معاملات میں قدم اٹھانے سے قبل وہ خلیفۃ المسلمین کے تیور بھی دیکھ اورجانچ لیا کریں ۔ ہمارے پرانے ادوار میں مسلم خلیفہ اور اس کی بے پایاں سلطنت سے تمام مغربی مملکتیں ،ہر وقت لرزاں رہتی اور جان کی امان طلب کرتی تھیں ۔ یہ متحدہ خلافت پھرجہاں بھی چاہتی ، داخل ہوجاتی تھی اور علاقے کو مفتوح کرکے وہاں کے پسے ہوئے باشندوں کو راحت و آرام کی ایک نئی فضا ء فراہم کرتی تھی۔ ’’ایک دارالحکومت۔ ایک خلیفہ۔ ایک سکہ۔ ایک فوج۔ ایک پرچم۔ اور ایک پارلیمنٹ ‘‘!۔ مسلم دنیا کے موجودہ نقشے پر نظر ڈالی جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے ۔ تمام مسلم ممالک یہاں سے وہاں تک ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے نظر آتے ہیں جن کی سرحدیں پار کئے بغیر دنیا کی نہ تو کوئی فضائی ، بحری ، و زمینی تجارت انجام پاسکتی ہے ا ور نہ کوئی اسی کی مانند آمدو رفت!۔ مگر کس مسلم حکمران کو اس عظیم قوت کا احساس ہے ؟۔وہ قوت جسے رب ِ ذوالجلال نے امت مسلمہ کو از خود عطا کی ہے!
او رپھر ان سب سے بڑھ کرخود ہمار ایہ دینِ اسلام!‘‘۔مجال نہیں ہے کہ مغربی دنیاپھر مسلمانوں کو یوں کھلے عام ذبح کرتی پھرے اور ان پر اپنا نیا عالمی نظام تھوپ سکے۔ اس کے برعکس پھر یہ مسلمان ہوں گے جو تب انسا نیت کا اپنا قرانی دستور ان کے سامنے پیش کریں گے ۔ ایسی ہی خلافت پھر دنیا بھر کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کرسکے گی!۔ وہ منظر مسلمانوں کے لئے کس قدر مسرت کن ،اور عالمی طاقتوں کے لئے کس قدر مرعوب کن ہوگا جب خلافت اسلامیہ کے بحری بیڑے اپنے سبز ہلالی پرچم کے ساتھ دنیا بھر کے سمندر وں میںگھومتے پھررہے ہوں گے ، اور مسلم لڑاکا طیارے فضائوں میں الگ اپنی دادِ شجاعت ومہارت دکھا رہے ہوں گے! ۔آسمان پر بھی سبز ہلالی پرچم لہرارہے ہوں گے اور سمندر میں بھی!۔ تب اس خلافتِ اسلامیہ کی وسیع و عریض فوجی و عسکری سپاہ کی قیادت کوئی مصلحت پسند کمانڈر انچیف یا کمانڈو نہیں بلکہ مردِ مومن و مرد ِجری ٹیپو سلطان ، سلطان صلاح الدین ایوبی،یا عقبہ بن نافع ؒ کررہے ہوں گے! ۔ پھر جب ا ن بیس یا پچیس ممالک کے ساتھ ساری دنیا کاروبار کررہی ہوگی ،تو اس عظیم ’’ایمپائر ‘‘ کی کرنسی (ریال یا دینار) کے قدر کے استحکام کا بھی کیا کہناہوگا!
تاریخ کی یہ ایک بہت سہانی حقیقت ہے کہ محض ایک خلافت ِ عثمانیہ ہی صدیوں تک کم از کم بیس عدد مشرقی و مغربی ممالک پر مشتمل ملتِ واحدہ بنی رہی تھی جبکہ اس کے تمام ریاستی اجزاء اس کے صوبے (ولایات)کہلایا کرتے تھے۔ آج جو صرف شام ہے ، جو صرف اردن ہے ، جوفلسطین ہے ،جوکویت ہے ، اور لبنان ہے، یہ سب مل ملا کرکبھی محض ایک صوبہ ’’شام‘‘ ہی کہلاتے تھے۔ اس وقت کوئی اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ مرد مومن کے بازووٗں میں اللہ تعالیٰ نے کتنی طاقت سموئی ہوئی ہے!۔ عثمانی خلیفہ نے تب ہی تویہودی قائد کی حریصانہ پیشکش کے جواب میں بے حد اعتماد کے ساتھ دارالخلافے استنبول سے جواب دیاتھا کہ ’’ میری لا ش پرسے گذر کر ہی یہودی فلسطین حاصل کرسکتے ہیں ‘‘۔ آج توکوئی ایک اسلامی ملک ہی ہم سے بہتر طریقے سے نہیں سنبھا لا جارہا ، لیکن کل حال یہ تھا کہ خطہ ارض کے ایک تہائی حصے پر ہم کامل اعتماد کے ساتھ صدیوں تک لگاتارحکومت کر تے چلے جارہے تھے۔ کفر کی قوتیں مسلسل آآکے ٹکراتی تھیں اور شرمندگی اور لاشوں کے ساتھ مایوسانہ واپس لوٹ جاتی تھیں ۔ ان کی حدود سکڑتی جارہی تھیں اور ہماری حدود پھیلتی جا رہی تھیں !
مسلمانوں کے لئے یہ وقت گہرے غور و تدبر کا ہے ۔ ایک صدی سے ان پر بیتنے والی درد انگیز بِپتاکا واحد علاج اب سوائے احیائے خلافت ِ اسلامیہ ،اور کوئی نہیں ہے۔ وہی خلافت جو آج سے تقریباً ۸۰ سال قبل تک عثمانیوں کے ہاتھوں قائم و موجودو رہی تھی اور جس کے خلیفہ کی آواز تمام دنیا کے مسلمانوں کی متفقہ آوازگردانی جاتی تھی۔ وہ خلافت جس کا سکہ یوروپ ، افریقہ، اور ایشیاتینوں براعظم میں ایک ساتھ چلتا تھا او ر سمندر پر صر ف انہی کی حکمرانی نظر آتی تھی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر صیہونیوں نے بڑی سازشوں کے ساتھ اسے تاراج اور ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔ مسلمانوں کو اس کے بعدسے اب دوبارہ ویسی خلافت اورعالمی عروج حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔
اپنے گمبھیر مسائل کی خاطرہماری مملکتوں کو اب اُس بدنام عالمی ادارے سے رجوع کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے جسے اقوامِ متحدہ کے نام سے جانا جاتاہے اور جسے یہودیوں نے محض اپنے تحفظ اور مفاد کی خاطرایک بالا تر ادارے کے طور پرقائم کیا تھا۔ بد قسمتی ہے کہ تمام مسلم ممالک اس وقت اسی اقوام متحدہ کے خوشہ چین بنادئے گئے ہیں جومغربی طاقتوں کی آلہء کار بنی ہوئی ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسی سالہ اپنی طویل مدت میں اس ادارے نے مسلمانوں کو سوائے نقصان پہچانے کے اورکیادیاہے؟ ۔ا مت مسلمہ کا کوئی ایک مسئلہ بھی توایسا نہیں جسے اقوام ِ متحدہ نے اب تک حل کیاہو!۔ کسی بھی اہم سنگین سیاسی و عالمی مسئلے کو مفاد پرست پانچ قوتیں آناً فانًا ویٹو کردیتی ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو اس سے بس برائے نام ہی تعلق رکھنے کی ضرورت ہے ۔امت اگر اب پھراپنی وہی قدیم سربلندی اور مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو ایک خلیفہ ، ایک پرچم،اور ایک سکے کے تحت اسے دوبارہ خود کو منظم کرنے کی راہ پر آنا ہی ہوگا۔ ایہی وہ واحد راستہ ہے جس سے خلیفہء مسلم، مغرب کے مد مقابل کھڑا ہوسکتا،اور مسلمانوں کی نمائندہ آواز بن سکتاہے۔
اس صدائے تازہ کو اب وقت کی آواز گرداننا چاہئے۔ بد قسمتی سے ۱۹۴۷ء سے کسی بھی خطے کی مسلم حکومت نے احیا ئے خلافتِ اسلامیہ کو اپنا نصب العین نہیں بنایا حالانکہ وہ سب کی سب آزاد مملکت کی حیثئیت رکھتی ہیں۔
وہ جو علامہ اقبال نے صدا لگائی تھی کہ ’’کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی‘، ‘ تو وہ’’ آب ِ بقا ئے دوام‘‘ آج یہی نفاذِخلافتِ قدیم ہے!۔ وہی نظام جس کا خواب سید احمد شہیدؒ ، مولانا اسماعیل شہیدؒ ، اور مولانا محمد علی جوہر نے قوم کو دکھایا تھا اورجس کے نفاذ کودنیائے اسلام آج بھی تڑپتی ہے ۔
اس مقصد کے لئے دینی تحریکوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ خود کوایک’’ باہمی عالمی نیٹ ورک‘‘ میں پروئیں جس کا اپنا ایک ہیڈ کوارٹر اور اپنا ایک سیکریٹریٹ ہو،اور جس کے سربراہ کی آّواز کو تمام مسلم تحریکوں کی متفقہ آواز قراردیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ تنظیم کا ہیڈ کو ارٹر کسی ایسے ملک میں ہو جو تحریر ، تقریر، اور تنظیم کے لحاظ سے آزاد ہو، جیسے سوئیٹزرلینڈ !۔ احیائے خلافت ِ اسلامیہ کی جانب یہ سب سے پہلا قدم ہوگا۔ ہر اہم مسلم معالمے میں یہ تنظیم بہترین مشاورت کے ساتھ اپنی عالمی پالیسی اور نمائندہ لائحہء عمل دیا کرے۔ ابتدا میں تو شاید نہیں ،لیکن رفتہ رفتہ مغرب اس آواز کو اہمیت دینے پر مجبور ہو گا۔ جو ں جوں تنظیم کی اہمیت سامنے آتی جائے گی، بقیہ عالمی مسلم تحریکیں بھی اس کے ساتھ وابستہ ہوناپسند کرنے لگیں گی ۔ نیز تمام مسلم حکمرانوں کے ساتھ بھی اسے مضبو ط ’’لائژن‘‘(رابطہ)رکھنا ہوگا تاکہ تنظیم کی افادیت کا انہیں بھی اندازہ ہوسکے!
مندرجہ بالا تجاویز اوراقدامات یوں تو عامۃ النا س سب ہی کے لئے مفید ہیں لیکن ان کے لیے تو لازماًقابلِ تدبرہیں جن کے ہاتھوں میں ہمیشہ ملک و ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے۔ اسی قبیل کی شخصیات کے طرز عمل سے قومیں بنتی اور قومیں بگڑتی ہیں ۔ اگر یہی لوگ صحیح ہوجائیں تو ملت اسلامیہ کی تقدیر بدلنے میں دیر ہی کیا رہ جائے گی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضی الدین سید ۲۶۴۶۱۰۹ ۔۰۳۳۱
