633

تقلید پسند علماءکا کردار علامہ اقبال کے نزدیک !

تحقیق و ترتیب: رضی الدین سیّد۔کراچی
تعارف: رضی الدین سید ایک نمایاں مصنف و تحقیق نگار ہیں۔ یہودیت ،عیسائیت ،امت مسلمہ اور امریکہ جیسے موضوعات پر انہوں نے انگریزی و اردو میں اب تک کم و بیش 30 کتابیں لکھی ہیں۔اس کے علاوہ ملک کے اخبارات و رسائل میں بھی وہ پا بندی سے لکھتے ہیں۔ انداز بیان بہت سادہ و مدلل ہے۔فائنانس منیجر کی حیثئیت سے 20 سالوں تک ذمے داری ادا کرنے کے بعد اب وہ محض تحریر و تصنیف کے لئے وقف ہوکر رہ گئے ہیں۔ فون ۱۷۵۷۹۳۲۔۰۰۳۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بییسویں صدی کے آغاز میں جب جابر مغربی قوتوں نے مسلم ممالک پر قبضے کرنے شروع کئے تو عام مسلمانوں کی مانند، شاندار ماضی رکھنے والے علماء بھی بدقسمتی سے حالات کے آگے سپر ڈال کے بیٹھ گئے۔ یہ وہ دور تھا جب نت نئے سائنسی حقائق دنیا کے سامنے آرہے تھے اورگوناگوں مسائل و نظریات تھے جن کا امت ِ مسلمہ کوسامنا کرناپڑ رہا تھا۔ وقت تقاضا کررہا تھا کہ مسلمانوں کی رہنمائی کی جائے اورانہیں نئے دور کے تقاضوں کے عملی حل بتائے جائیں ۔غلامی قبو ل کی جائے، یاپھرقابض قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں ؟۔ نئے علوم حاصل کئے جائیں یا اپنے قدیم ورثے ہی پر قائم رہا جائے؟۔ فاتح اقوام کے لباس و طرزِدگی کو اپنایا جائے یا روایتی لباس و اطوار ہی کوجاری رکھاجائے؟۔ غرض بہت سے پیچیدہ سوالات تھے جو اس وقت مسلم دنیا کو بیک وقت درپیش تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ رہنمائی کرنے والے علماء نے عافیت اسی میں جانی کہ نئی الجھن میں پڑے بغیر خود کومساجد و خانقاہ کے گوشہءعافیت میں ڈال دیا او ر قال اللہ و قال الرسول کی حد تک ہی محدود کرلیا۔ بغیر کوئی تدبر کئے ہی انہوں نے سمجھ لیا تھااور سمجھا دیا تھا کہ یہ جو کچھ ا ب سامنے آ رہا ہے، کفر ہے،گمراہی ہے، اور سلبِ ایمان کے طو ر طریقے ہیں۔ بے شک اس میں بہت حد تک سچائی بھی تھی لیکن کلی سچائی تو پھر بھی وہ نہ تھی۔عام مسلما ن دوطرفہ مشکل میں تھے۔ ایک طرف روائتی ودینی طرزِ زندگی تھی اورد وسری جانب حاوی مغربی قوتوں کا جاری نظام تھا جو ان سے اپنی قانونی اطاعت کا باصرارتقاضا کررہا تھا۔

ہندو پاکستان کے ممتاز مفکر و شاعرعلامہ اقبال کی سد اسے تمنا رہی کہ جامد دینی اجتہاد کا احیا کیا جائے اور نئے راستے نکالے جائیں تاکہ دین و دنیا دونوں متوازی طورپر بغیر کسی تصادم کے چلتے رہیں۔ نیزاسلام بھی مغربی تہذیب کے سامنے سرخرو ہو سکے۔ اس ضمن میں علامہ بہت درد اور تڑپ رکھتے تھے ۔منتظر تھے کہ منبر و محراب کی جانب سے مناسب پیش رفت کی جائے گی اور عوام الناس کی بہتر رہنمائی کی جائے گی۔ اپنے اشعارکا استعمال کر کے انہوں نے قدامت پسند علما کو بہت جھنجو ڑا کہ وہ بسم اللہ کے گنبد سے باہر آئیں۔ لیکن نہ صرف یہ کہ یہ شخصیات اپنے آبا ئی اطوارو انداز سے پیچھے ہٹنے پر مطلق تیار نہ تھیں بلکہ جو کوشش بھی اس ضمن میں کی جاتی تھی ، وہ اسے بھی گمراہ ومردود کہہ کررد کردیتی تھیں۔ علامہ حیران تھے کہ اکیسویں صدی کی ابھرتی ہوئی ایک نئی طاقت اور علمی تہذیب کے مقا بلے میں اسلا م کواجتہاد کے بغیر زند ہ کیسے رکھا جا سکتا ہے؟۔ یہی وہ آرزو تھی جسے علامہ اپنے اشعار میں زندگی بھر بہت تڑپ کے ساتھ رکھتے رہے۔
ذیل میں ان کی کلیات سے ہم نے اسی قسم کے حسرت بھرے کئی اشعار منتخب کرکے یکجا کر دئے ہیں ۔پڑھ کرکوئی بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ دینی طبقے کے جامد کردارسے علامہ کو کس قدر دکھ پہنچتاتھا! ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔بانگ ِدرا(شیخ غلام علی اینڈ سنز لمیٹیڈ۔لاہور۔۲۸۹۱)

(۱)۔ یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آذری کررہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہِ احجاز ہوجا ص۰۳۱

(۲)۔بھلا نبھے گی تری ہم سے کیوں کر اے واعظ؟
کہ ہم تو رسمِ محبت کو عام کرتے ہیں۔۔۔! ص ۹۳۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۔ارمغان ِ حجاز (کلیات ِ اقبال۔ ”دی کولیکشنز“۔لوئر مال ۔لاہور۔سنہ غےرمعلوم)

(۱)۔َحریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی۔۔۔!
انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ ص۰۸۱

(۲)۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری ص ۵۷۱

(۳) باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتہ سلطانی و مُلّائی و پیری! ص۷۶۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔ضرب کلیم (کلیات ِ اقبال۔ ”دی کولیکشنز“۔لوئر مال ۔لاہور۔سنہ نامعلوم)

(۱) خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام ص۔۱۳۱

(۲) کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو ص ۲۷

(۳) ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ ص۰۸۱

(۴) خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق! ص ۱۲

(۵) قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا جانیں بیچارے یہ دو رکعت کے امام ص۴۲

(۶) صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار! ص ۶۳

(۷) مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد! ص۳۳

(۸) پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں!
نے جدت گفتار ہے، نے جدت کردار ص ۔۰۴

(۹) خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامہ احرام! ص۹۶

(۰۱) مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوت ِکوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش ص ۱۷

(۱۱) خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے
فقیہ شہر کہ ہے محرم ِحدیث و کتاب ص۴۰۱

(۲۱) ممکن نہیں تخلیق خودی خانقاہوں سے
اس شعلہ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا! ص۳۴۱

(۳۱) اے پیر حرم رسم و رہ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا ص ۱۵

(۴۱) مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتاہے، مگر۔۔!
چھوڑجاتاہے خےالا ت کو بے ربط ونظام ص ۹۶

(۵۱) سرود بر سرِمنبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام ِ محمد ِ عربی است ص ۴۸۱
یعنی (منبر سے یہ پر جوش نعرہ لگایا جارہا ہے کہ ’ملت وطن سے قائم ہوتی ہے‘۔ آہ وہ بے چارہ مقامِ
محمدعربی ﷺ سے کس قدر ناواقف ہے)

(۶۱) عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو !
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام ص ۳۲

(۷۱) تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام ص ۳۲

(۸۱) مقامِ فکر ہے پیمائش زمان و مکاں
مقامِ ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ ص۲۲

(۹۱) وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لااِلٰہ میں ہے
طریق شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے؟ ص۷۴

(۰۲) خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میںہے ملت کی زندگی کا پیام ص۱۳۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۔(بالِ جبریل)(شیخ غلام علی اینڈ سنز لمیٹیڈ۔لاہور۔۷۸۹۱)

(۱) میں جانتا ہوں انجام اس کا ۔۔!
جس معرکے میں ملا ہو ں غازی ص ۱۷

(۲) جس معرکے میں مُلّا ہوں غازی
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
و فقط اللہ ھو ، اللہ ھو ، اللہ ھو۔۔۔۔۔۔!! ص۴۴۱

(۳) وہ مذہب مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب مُلّا و جمادات و نباتات ص۹۷

(۴) مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی، نہ خانقاہ میں ہے ص ۹۶

(۵) پیر حرم کو دیکھا ہے میں نے
کردار بے سوز ، گفتار واہی ص ۳۵

(۶) اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ! ص۶۴

(۷) شکایت ہے مجھے یا ربّ! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا ص۲۳

(۸) یہی شیخ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا ! ص۳۲

(۹) ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم ِ پیری ص ۵۷۱

(۱۰) کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے؟
فقیہ و صوفی و شاعر کی نا خوش اندیشی ص۰۳

(۱۱) نہ فلسفی سے ، نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت ، وہ اندیشہ و نظر کا فساد ص۰۷

(۲۱) فقیہ شہر کی تحقیر ! کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد ص۰۷

(۳۱) تھا جہاں مدرسہءشیری و شاہنشاہی
آج ان خانقاہوں میں ہے فقط روباہی ص۵۷

(۴۱) ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن ص۶۶۱

(۵۱) نذرانہ نہیں ، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہئ” سالوس“ کے اندر ہے مہاجن ص۶۶۱
(سالوس: دغابازی)

(۶۱) میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن! ص۶۶۱

(۷۱) احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند ص ۰۲

(۸۱) مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟ ص۴۶

(۹۱) نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقول
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت ص۷۱۱

(۰۲) بد آموزیءاقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد، نہ کلیسا،نہ کنشت ص ۸۱۱
(کنشت ،ےعنی یہودےوں کی عبادت گاہ کنیسا )

( ۱۲) ’قم باذن اللہ‘ کہہ سکتے تھے جو ، رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن! ص ۱۶۱

(۲۲) الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور ص۶۵۱

(۴۲) متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی۔۔۔!
یہ کس کافر کی ادا کا غمزہ ءخون ہے ساقی؟ ص۱۱

(۵۲) کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام؟
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مدت سے خموش ص ۵۷

(۶۲) یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف ص۸۷

(۷۲) ایں حقیت را بہ رندے فاش
کہ مُلّا کم شناس کَے دانند رمزِ دیں را ص۲۲
(یہ حقیقت تو بس مے نوش ہی پر فاش ہوئی، ورنہ کم شناس مُلا بیچارہ کیا جانے اس دین کی حقیقت؟)

(۸۲) تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر ص۹۲

(۹۲) ( سکھا دئے ہیں اسے شیوہ ہائے خانقہی
فقیہِ شہر کو صوفی نے کردیا ہے خراب ص۶۳

(۰۳) مجھ کو تو سکھادی ہے افرنگ نے زندیقی
اِس دور کے ملّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی؟ ص۹۱

(۱۳) خداواند ا یہ تیرے ساد ہ د ل بنے کدھر جائیں؟
کہ درویشی بھی عیاری ہے،سلطانی بھی عیاری ص۷۳

(۲۳) آہ مکتب کا جوان گرم خون!
ساحر کا افرنگ صیدِ افسوں ص ۶۳۱

(۳۳)یہ پیران ِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری۔۔!
صلہ ان کدوکاوش کا ہے، سےنوں کی بے نوری ص۹۵

(۴۳) ہے بد آموزی ءاقوام و ملل کام اس کا!
اور جنت میں نہ مسجد ،نہ کلیسا، نہ کنیشت ص۸۱۱

(۵۳) لبھاتاہے دل کو کلامِ خطیب۔۔!
مگرلذت شوق سے بے نصیب ص۴۲۱

(۶۳) بےاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھےڑوں میں الجھا ہوا ص۔ ۴۲۱

(۷۳) رہانہ حلقہءسوفی میں سوزو مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی ص۔ ۵۶

(۸۳) کرے گی داورِمحشر کو شرم سار اک روز
کتاب ِ صوفی و ملا کی سادہ اوراقی۔! ص۵۶

(۹۳) اے لاالہ کے وارث ، باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ، کردا ر قاہرانہ۔! ص۴۵

(۰۴) گلا تو گھونٹ دیا اہل ِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الااللہ ؟ ص ۴۵

(۱۴) کےا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی ؟
ان کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے ص ۳۳
(کل اشعار ۶۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ روایتی علما کا یہ کردار اسلامی دنیا میں کم و بیش آج تک برقرار ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے علماء،جمود کے ناقد علامہ اقبال کے یہ اشعاراب بھی بہت زور و شور کے ساتھ پڑھتے ہیں۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضی الدین سید۔کراچی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں