از: رضی الدین سید۔کراچی
برتھ کنٹرول کے قائل نہیں،جدید سہولیا ت بجلی اور ٹیلی فون سے دور رہتے ہیں
امریکہ میں عیسا یﺅں کا ایک ایسا طبقہ پایا جاتاہے جو آج کے دور میں بھی اپنی قدیم روایا ت کو زندہ رکھے ہوئے ہے اورمشترک خاندان کو ترجیح دیتا ہے ۔ ان کے مرد داڑھی رکھتے ہیں مگر مونچھیں رکھنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اس کا فلسفہ انہوںنے زبور کی اس آیت سے ڈھونڈا ہے : ”یہ اس بیش قیمت تیل کی مانند ہے جو ہارون کی داڑھی پر بہہ رہاہے“۔(۲:۳۳۱۔گویا حضرت ہارونؑ کی مونچھیں نہیں تھیں!) ۔ سادہ لباس پہنتے ہیں جسے وہ عاجزی اور دنیا سے عدم رغبت کی نشانی قرار دےتے ہیں جبکہ سر کو ایک کالے ہیٹ سے ڈھانپے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ہم فطرت کے بالکل قریب رہنا چاہتے ہیں ۔ ایمش خواتین سر پر ہر وقت جالی والی ایک ٹوپی رکھتی ہیں جس کا مقصد خودکو ہر وقت نماز کی حالت میں رکھنا ہے ۔ شادی شدہ عورتیں سفید جبکہ غیر شادی شدہ لڑکیا ں کالی ٹوپی پہنتی ہیں ۔ بالوں کا کٹوانامعیو ب گردانتی ہیں ۔ ان کے ہاں لڑکیو ں کی شاد ی عموما ۸۱ ےا ۹۱سال میں کردی جاتی ہے ۔ لڑکیا ں چوٹیا ں بناتی اوراونچے کالروں ، لمبی آستینو ں ، اور ٹخنوں تک لمبائی والے قمیص و اسکرٹس پہنتی ہیں ۔ حجاب وحیا کا خیا ل رکھتی ہیں ۔ سینٹ پال نے بھی عورتوں کو سر ڈھانپنے کی ہدایت کی تھی ۔ (دیکھیں بائبل کورنتھینئینس اول ۵:۱۱ ۔ ”جو عورت بے سر ڈھانکے دعا یا تبلیغ کرتی ہے وہ اپنے سر کو بے حرمت کرتی ہے۔وہ سر منڈی کے برابر ہے ۔ عورت کا بال کٹوانا شرم کی بات ہے ۔ اسے چاہئے کہ سر پر اوڑھنی اوڑھے“ ) ۔ میک اپ سے دور رہتی ہیں ، پونی باندھتی ہیں ، جوڑا باندھتی ہیں ، بعض اوقات کالے اسکارف اور کالے فل لینتھ گاﺅن استعمال کرتی ہیں اور دیگر عیسا ئی خواتین کے برعکس بال بالکل نہیں کٹواتیں ۔
ان کی کوئی خفیہ دوستی نہیں ہوتی ۔ ان کا جد امجد و بانی ایک دینی فرد جیکب Amman تھا جس کے نام پر یہ لوگ خود کو ایمش کہتے ہیں ۔ جلدی سوتے اور جلدی اٹھتے ہیں ۔ اکثر اوقات ان کے ہاں دائیاں ہی ولادت کرواتی ہیں ۔ البتہ میٹرنیٹی ہومز سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔
یہ لوگ برتھ کنٹرول کے بالکل قائل نہیں ہیں جسے خدائی احکام کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں ۔ ہر گھرانہ ۵،۶ بچے ضرور جنم دےتاہے ۔ کہتے ہیں کہ بڑ اکنبہ خدا کا انعام ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتاہے کہ ایمش کمیونیٹی دنیا کی سب سے زیا دہ بچے پیدا ا کرنے والی کمیو نیٹی ہے ۔ شادی صرف ایمش برادری ہی میں کرتے ہیں اور دینی و ثقافتی رواج کی خلاف ورزی کرنے والوں کو برادری سے باہر کردیتے ہیں ۔ جدید سہولیا ت مثلاََبجلی اور ٹیلی فون سے دور رہتے ہیں ۔ کاریں یا بائکس استعمال کرنے کی بجائے محض گھوڑا گاڑی ہی کو ذریعہءسفر گردانتے ہیں ۔ کھیتو ں میں ہل چلانے کے لئے بھی ٹریکٹر س کی بجائے گھوڑوں کو جوتتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید سہولیا ت انسان کو سست و فارغ کردیتی ہیں ۔ جبکہ خدا ہدایت کرتاہے کہ انسانوںکو جفاکش اور محنتی ہونا چاہئے ۔ فوج میں بھرتی ہونے کو مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں ، بیمے سے گریز کرتے ہیں ، اور بچے کی جنس کے تعین کے لئے الٹر ا ساﺅنڈ کو گنا ہ قرار دیتے ہیں ۔ عاجزی ان کا شعار ہے ۔ بچوں کو ساتویں آٹھویں تک تعلیم دینے پر کفایت کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایمش طریقہء زندگی پر عمل کرنے کی خاطر اتنی تعلیم بھی کافی ہے ۔ یو نیو رسٹی کی تعلیم کو نامناسب سمجھتے ہیں کہ یہ سب دنیا وی مفادات کو پروان چڑھانے کا سبب ہیں ۔ تصویر کشی کے بھی مخالف ہیں کیو نکہ ان کے نزدیک ان سے لوگوں میں ذاتی تشہیر کا جذبہ جنم لیتا ہے ۔ اس ضمن میں وہ رومیو ں کے نام سینٹ پال کے اس خط کا حوالہ دیتے ہیں جس میں اس نے رومیو ںکو کہا تھا کہ ” پس اے بھائیو اور بہنو میں تم سے ا لتماس کرتاہوں کہ اپنی جان کو ایسی قربانی کے لئے نذر کرو جو زندہ اورمقدس اور اللہ کو پسند ہو ۔ یہی تمہاری اللہ کے لئے روحانی عبادت ہے ۔ اس دنیا کے لوگوں کی مانند تم خود کو نہ بدلو“ (رومنس کے نام خطوط۔ آےت ۱،۲ ۔ باب ۲۱)
موت کے وقت قبروں کو خوبصورت بنانے کی بجائے صرف سادہ رکھتے ہیں اور شناخت کی خاطر صرف ایک کتبہ لگاتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہم دنیا میں بھی یکسا ں رہے ہیں تومرنے کے بعددرجے بندی کیو ں کریں؟ ۔ موسیقی سننا و ر بجانا دنوں کاموں کو غلط گردانتے ہیں ۔ انہیں وہ جذبات بھڑکانے والے عمل قراد یتے ہیں ۔ روشنی یہ گیس والی لالٹینو ں سے حاصل کرتے ہیں ۔ یہ لوگ زیا دہ تر امریکی ریا ستوں ” اوہائیو ، فلاڈلفیا ، او ر”پنسیلی وانیہ“ میں رہتے ہیں ۔ گوگل سرچ کے دوران اوہائیو یو نیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک ہندو طالبہ کا بیا ن سامنے آیا جس میں اس نے بتایاکہ ایمش عیسا ئی بہت سادہ رہتے ہیں ، ان کے ہاں کم عمری کی شادی کا رواج ہے ، عورتیں پوری آستین کی قمیصیں پہنتی ہیں ، کم عمری میں اپنی بیٹیوں کی شادیا ں کرتی ہیں ، اور غیر شرعی تعلقات رکھنے کو گناہ سمجھتی ہیں ۔ نام ونمود سے بھی بہت دور رہتے ہیں ۔
پاکستان کے ایک ممتاز ماہر معیشت و آئی بی اے کے سابق ڈائریکٹر محمد عذیر مرحوم ، جو فلاڈلفیا جاچکے تھے ، اپنی سوانح حیا ت ”خود نوشت ، شائع شدہ ۴۱۰۲ء گلشن اقبال کراچی “ میں لکھتے ہیں کہ ان کے مر داڑھیا ں رکھتے ہیں ، ان کی عورتیں میک اپ قطعاََ نہیں کرتیں ۔ ان کاکہنا ہے کہ ہم فطرت اور قدرت سے بالکل قریب ترین رہنا چاہتے ہیں ۔ یعنی جیسا کہ خدانے پیدا کیا ہے ۔ چنانچہ یہ لوگ اقسدددددددشپنے ہاتھوں سے دودھ اورمکھن بناتے ہیں ، دوکانوںسے نہیں خرید تے ۔(ص۔۲۹۱)
آج کے دور میں یہ طبقہ کس قدر عجیب لگتاہے؟۔ اور وہ بھی ترقی یا فتہ ملک امریکہ میں! ۔ لیکن یہ سادہ مزاج مذہبی لوگ تمام چیز وں سے بے نیا ز اپنی مرضی ہی سے زندگی گذارتے چلے جارہے ہیں ۔ اور پھر بھی مکمل خوش ہیں! ۔ زندہ قومیں ایسا ہی کردار رکھتی ہیں۔ ان کا طرزِعمل اس شعر کی مانند ہوتاہے کہ
جو کہتی ہے دنیا وہ کہے ، ہم نہیں سنتے۔۔۔ دنیا نے کوئی بات ہماری بھی سنی ہے؟
