۔ ۔ ۔ اگرچہ یہ شخص عالم تو نہیں تھا، مگر علما سے بڑھ کر کوئ مخلوق تھا۔ شروع ہی سے انگریزی ماحول میں پلا بڑھا تھا، تھری پیس سوٹ پہنتا تھا، سگار اور چرٹ پیتا تھا، نماز روزے سے زیادہ سروکار نہ تھا۔ انگلش فرفر بولتا تھا۔اردو میں بات کرتا تو زبان اٹکتی تھی۔مگر پھر بھی ترجیح اردو ہی کو دیتا تھا۔ڈھاکہ گیا تو اسی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا۔پھر بھی کوئی جھجک اس پر لازم نہ ٹھہری۔ پندرہ سولہ سال کی عمر ہی میں اکیلے انگلینڈ گیا ماحول جہاں کا کھلا کھلا پایا۔ والدین بھی ساتھ نہ تھے۔کھل کھیلنے کی پوری آزادی تھی۔جوبھی جاتا تھا، لچھن اس کے یہی ہوتے تھے۔ایک میم تووہ کم از کم ساتھ لے کر آتا ہی تھا۔ لیکن مجال ہے کہ گندگی کی ایک ہلکی سی چھینٹ بھی اس نے دامن پر لگا ئی ہو۔ جیسا ستھرا گیا تھا، ویسا ہی ستھرا واپس آیا۔ ۔ ۔ مسلم دنیا کے تمام آزادی پسند مسلم رہنما، اسلام بیزاری کی طرف مائل تھے۔ لیکن بس یہی ایک :غریب، اعلی ترین تعلیم یافتہ فرد ، اسلام کا مکمل وکیل بنا رہا۔ اسلام کی تعریف میں کون سا دن تھا جب اس نے اپنی زبان گیلی نہ کی ہو؟پردے جیسے موضوع پر بھی اس نے کبھی ناک بھوں نہیں چڑھائ ۔ وہ پردے دار خواتین ہوں یا گھریلو عام خواتین، کسی کو بھی پردہ چھوڑ دینے کی نصیحت نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ مسلم۔لیگ کے خصوصی اجتماعات میں مولانا محمد علی جوہر کی بیوہ بیگم، نقاب دار پردے میں شرکت کرتی تھیں۔ کردار کا اعلی،اجلا،مہذب، اور منظم۔تھا۔ہندو رہنمائوں کی مانند ہر گھڑی رنگ نہ بدلنے لگتا تھا۔اصولوں کا پابند تھا اور اصولوں ہی کی لڑائی لڑتا تھا۔گاندھی جس کا جادو ہر ایک پر چل جاتا تھا، کیا چھوٹا ۔ کیا بڑا۔ مگر ایک محمد علی جناح ہی پر وہ جادو کام نہ کرپاتا تھا۔ایڈوینا مائونٹ بیٹن،جس کی خلوتوں میں جواہر لال نہرو ہر وقت گھسےرہتے تھے،قائد اعظم کی شخصیت پر اس کا سحر بھی کبھی نہ چل سکا۔قائد اس مزاج کے بنے ہی نہ تھے۔ جس ہندو قوم کے قول و فعل پر اس دور کے علما تک صاد کرنے لگے تھے، اسی ہندو قوم کے خفیہ منصوبوں کو اس نے بالکل ابتدا ہی میں بھانپ لیا تھا ۔۔ان کے ساتھ زندگی گزارنے کو وہ مسلمانوں کی موت قرار دیتا تھا ۔اسی لئیے کانگریس چھوڑنے والوں میں وہ فرداولین تھا۔ مولانا شوکت علی کے دل کا چین تھا۔ لیاقت علی خان کا قائد بے بدل تھا۔۔علامہ اقبال کا آرزوئے قلب تھا۔ سر سید کی صدائے ماضی تھا۔بھٹکے ہوئے ریوڑ کا منظم گڈریا تھا۔اور کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن تھا۔اپنے چمن کا وہ اور ہی کچھ نغمہ خواں تھا ۔اس کی صدائے دل سوز ایک الگ ہی رنگ رکھتی تھی
سو کہاں دیکھا ہوگا تم نے ایسی منفرد صفات کا قائد اے لوگو؟ انہی نکھرے نکھرے کردار کو دیکھ کر دل سو فیصد گمان کرتا ہے کہ یہ عجیب و غریب فرد، یہ بیچارہ دبلا پتلا قائد, اگر مزید کچھ عرصے زندہ رہ جاتا, اگر اس کی زندگی ا سے مزید کچھ مہلت دے دیتی, تو یہ قوم آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتی۔ملک میں اسلام کا نفاذ کامل طور پر ہوجاتا ۔ ۔ایک کسک جو آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں موجود رہتی ہے۔۔ ۔۔ ہر گھڑی۔ ۔ ہر دم۔ ۔! اپنے قائد کی میں تمہیں کیا کیا خوبیاں گنوائوں اے ساتھیو؟
رضی الدین سید۔کراچی
