413

’’لولی لنگڑی جمہوریت‘‘؟

پا کستان کے سیا سی پس منظر میں گھا گ خاندانی سیا ست دان یہ با ت با ر با ر دہرا تے ہیں کہ ’’لولی لنگڑی جمہوریت ، بہتر ہے کئی درجے کی آمریت سے‘‘۔ یہ نعرہ اس شد ومد سے دہرا یا جاتا ہے کہ عام آدمی بھی جھوم جھوم اٹھتا ہے۔ لیکن ایک نظر رک کر یہ بھی دیکھنا چا ہئے کہ کیا واقعی یہ کلیہ ،یہ نعرہ با لکل درست ہے؟ ۔ کیا واقعی آمریت جمہوریت سے کوئی بدتر نظام ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے نعرے جد ی پشتی سیا ست دانوں نے محض اپنے تحفظ اور ملکی حکمرا نی میں سدا موجود رہنے کے لیے خود ہی ایجا د کئے ہیں . ورنہ نہ تو شخصی آمریت ہمارے ملک میں کبھی درست ثا بت ہوسکی اور نہ رائج ا لوقت جمہوریت ہی نے کوئی عمدہ ثمرات چھوڑے! ۔ ہر دوقسم کے نظام ہا ئے حکومت میں نہ توملک سدھر سکا اور نہ عالمی طور پرپا کستان کا کوئی
وز ن ما نا گیا . مسکین سا ہمارا یہ سکہ ’’روپیہ‘‘ بھی بلکہ ہر دور میں نیچے ہی آ تا رہا۔ غربت ہر دورمیں پہلے سے سواہوتی رہی، امن و امان کے سلسلے ہر دور میں کمزور تر ہوتے رہے ، عالمی طا قتوں کی دھمکیا ں ہر زمانے میں طا قتور ہوتی رہیں ، اورپینے کے صا ف پا نی اور سڑکوں کی حا لت زار روز بروز بگڑتی رہی وغیرہ! ۔ صفائی ، حفظان صحت، کھیل، تعلیم، جمہوری ادارے، ملازمتیں، معیشت
،
سیا حت ، غرض کس کس کا رونا رویا جائے؟۔ لو لی لنگڑی جمہوریت نے آخر ہمیں دیا ہی کیا ہے؟. سو اب بھلا ا صل جمہوریت کے قتل کا لہو کس کی آستین پر تلاش کیا جائے؟۔کس کو اس قتل ِعام کا ذمے دار ٹھہرایا جائے َ؟ شخصی آمریت کو؟، جمہوریت کو؟ یا فوجی ڈکٹیٹر شب کو؟ وطن کو زوال پذیر اورنا کا م ریا ست کے درجے تک پہنچا نے میں ہم آخرکسے قصور وار اور کسے قصور سے مسنثنی ٰ قرار د یں ؟
یہ لولی لنگڑی جمہوریت ہی کا کما ل ہے کہ ’’ادھر تم ادھر ہم ‘‘ کے عجیب و غریب نعرے اور صدر یحیٰ کی آئندہ بھی صدر جمے رہنے کی ہٹ دھرمی کے باعث۱۹۷۱ میں پاکستان دولخت ہوگیا تھا . ا گر کوئی حسن اس جمہوریت میں پوشیدہ ہے تو ہم سب کو بھی بتا یا جائے۔ و رنہ عام آدمیوں کو تو اس کا ’’حسنِ سحر انگیز‘‘ کہیں نظر نہیں آتا۔

یہاں تو حا ل یہ ہے کہ ملک بھر میں ایک ایک سیاست دا ن ا ور ایک ایک جاگیر دار، طالع آ ٓزما بنا بیٹھا ہے کہ جیسے ہی بس چلے ، حکومت اس کے خاند ان میں جا قیا م کرے. پھلے تو ملک میں اس نوعیت کی خاندانی سیا ست کبھی کا رفرما نہیں رہی تھی ۔ لیکن بے نظیر بھٹو کے دور سے تولگتا ہے جیسے حکومت کو یہ لوگ کسی بھی حال میں ا پنے گھر سے باہر نہیں جانے دیں گے۔ ’’ہم نہ ہوں گے ، کوئی ہم سا ہوگا‘‘!۔ بھائی ہوگا، بہن ہوگی، یٹی ہوگیٔ ، یا بیگم صاحبہ ہوں گی !۔ نواز شریف نہ ہوں گے تو شہباز شریف ہوں گے. شہباز شریف نہ ہوں گے تو مریم نواز ہوں گی. بے نظیر چلی جا ئیں گی تو حکومت و پارٹی پر ’’سرتاج ‘‘کا قبضہ ہوجا ئے
گا۔ وہ پیچھےہٹیں گے تو شہزادے بلا ول سامنے آ جا ئیں گے۔ بس یہی ہے وہ نظام جسےجمہوریت یا لولی لنگڑی جمہوریت کے نام سے یا د کیا جا تاہے؟۔ آمریت کو تو خیر چھوڑئیے جوان لوگوں کے نزد یک ہے ہی قابل تنقید ومذمت ، لیکن معلوم کیا جائے کہ لولی لنگڑی جمہور یت کا یہ نظام کہاں سے بھلا ہوگیا ؟۔ٔ کتابوں میں تو جمہوریت کو بس جمہوریت ہی کہا جاتا ہے ۔وہ جو ملک کے عوام کا خیا ل رکھتی ، قومی حرمت کا پاس کرتی ، معیشت کو سنبھالا دیتی، معیا ری انتخابات کروا تی ، اورپھر ہار کر خاموشی سے حزب اختلاف کے روپ میں ڈھل جاتی ہے . ا گر اس مسعود جمہوریت میں ہمارے ہاں لنگڑا پن درآ یا ہے توکون ہے جو اس عملِ نا ہنجار کا مجرم ہے ؟، ا ور کون ہے جو اس جعلی نعرے کو وقت کی آ و از بنانا چاہتا ہے؟۔ اندرہی اندر تواصطلاح چغلی کھا رہی ہے کہ دال میں کچھ کا لا ضرو ر ہے؟ کوئی نہ کوئی پوشید ہ عزائم ضرورہیں! یہ وہ جمہوریت ہے جس میں ارکانِ پارلیمنٹ کے لئے آئین میں دیانت دار او ر صوم وصلوٰۃ کی پابندی کی سخت شرائط ہونے کے باجوود منتخب ہونے والے محض جاگیردار، اسلام دشمن، عورتوں کے رسیا، اور داداگیر ہی ہوئے ۔ ا یک سے بڑھ کر ایک! ہربر ائی ان میں ڈھٹا ئی سے موجود رہی لیکن کوئی ان کا بال بیکا بھی نہ کرسکا کیوں کہ بہرحال وہ سب منتخب نمائندے تھے ۔
یا د رہنا چاہئے کہ کئی ترقیا تی کام بدنام ِزما نہ فوجی اد وارہی میں ہوئے ہیں۔ بلدیا تی انتخابات سدا سے فوجی حکومتوں، صدر ایو ب ، صدر ضیا الحق ،اور صدر پرویز مشرف ہی نے کروائے ہیں۔ بلکہ صدر پرویزمشرف نے تو مئیر کی جگہ اس سے بلند ترنظام’’ سٹی ناظم‘‘ کا نا فذ کیا تھا جس میں سٹی نا ظم کو کسی بڑے بیو روکریٹ سے زیا دہ اختیا رات حاصل تھے . لیکن جوں ہی وہ رخصت ہوئے تو اول تو بلدیا تی الیکشن کروانے کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں رہی تھی۔ ا ورا گر کروائے بھی گئے تو اسی پرانے فرسودہ’’ مئیر‘‘ نظام کو دوبارہ زندہ کرکے کئے گئے . بھارت جا کر راجیو گاندھی کو پاکستانی ایٹم بم سے انتہائی حد تک خو ف زدہ کردینا صرف صدر ضیا الحق کا کام تھا۔ کا ر ٹر کی پاکستانی امداد کو مونگ پھلی سے تشبیہ دے کراس کا مذاق اڑانا صرف فوجی صدرضیا الحق ہی کی ہمت تھی . و ہی تھے جنہیں اس دور میں تمام مسلم دنیا اپنا عالمی رہنما گردانتی تھی َ۔ پرویز مشرف ہی تھا جس نے کارگل کی جنگ میں بھارت کو چنے چبوا ئے تھے۔ لیکن جمہور ی وزیر اعظم نے جسے قبول کرنے سے انکار کیا تھا . ا ور اب جو’’ ڈیا میر یر بھاشا ڈیم ‘‘تعمیر ہونے جارہا ہے ، وہ بھی کسی جمہوری حکومت کے طفیل نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس میا ں ثاقب نثار کے منصوبوں کے تحت ہی ہورہاہے. و رنہ ہماری یہ لولی لنگڑی حکومتیں تو ملک کے باسیو ں کو پیا سا ماردینے ہی کا پوراسامان کئے بیٹھی تھیں۔ اسی طرح ان تمام بڑے حکومتی لٹیر وں کا جو آج بے باک احتساب ہوتا ہوا محسوس ہورہاہے ، تو اس کی ہمت بھی جمہوریت کا راگ الاپنے والی کسی اعلی و ادنی شخصیت کو نہیں ہو سکی تھی۔ اس کاسہرابھی سپریم کورٹ کوجاتاہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت یا ’’ لولی لنگڑی جمہوریت‘‘ نام ہے ناپاک سیا سی و لسانی گٹھ جوڑاختیا ر کرنے کا، تمام بیر ونی منصوبوں پر کک بیکس وصول کرتے رہنے کا، ہر ادار ے پرنااہل خاندانی افرادکو کوتیس اور پینتیس لاکھ کے مشاہرے پر ملازمت دینے کا
ازمت د ینے کا، جبکہ ضعیف العمرافراد کو محض آٹھ ہزارماہانہ شرمناک پنشن پر ٹرخا نے کا، بھارت جیسے ازلی دشمن سے ذاتی تجارت کے فرو غ دینے کا، ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کا نعرہ ء بلند لگا نے کا، پار ٹیوں کی صدارت سدا اپنے خاندان میں محدود رکھنے کا ، ’’وطن عظیم‘‘کو ’’دنیا ئے عظیم ‘‘ میں سر بازار رسوا کرنے کا ، اوربیر ونی د نیا میں اپنے تعلیمی معیا ر کو تماشا بنانے کا ۔ کون ساڈھنگ کا کام ہے جو ہماری کسی بھی جمہوری حکومت نے کسی بھی دور میں انجام دیا ہو ؟۔
اسی جمہوریت کا سب سے عمدہ چہرہ علامہ اقبال نے یہ کہہ کر دکھا یا تھا کہ ؎
جمہوریت وہ طرزحکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا جاتا ہے ، تولا نہیں جاتا
سو جس لولی لنگڑی جمہوریت کو یہ ٹھیکید ار خاندانی سیا ست دان، رائج رہنے د ینا چا ہتے ہیں ،اس جمہوریت کو قوم کا لاکھوں سلام ! . نام جمہوریت کا لیتے ہیں او ر گھر بھرتے ہیں ، بیٹو ں ، بہنو ں، اور دامادوں کا!‘‘۔لولی لنگڑی جمہوریت کے نام پرتویہ لوگ پورے کا پورا ملک بیچ کھائیں تب بھی انہیں کوئی لاج اور شرم نہیں آ ئے گی ۔
RAZIUDDIN SYED

0331-2646109

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں