399

خاندان، جہاں انسان ساز ی کی جاتی ہے

اسلامی زند گی میں خاندان ایسا ادارہ ہے جس میں والدین اگرعمدہ کردار کے حامل ہوں تو اولاد کی کر دا ر سازی کے لئے وہ ایک بہترین ادارہ بن کے سامنے آ تاہے۔ کم از کم دس گیا رہ سال تک تو بچے ماں اوربا پ دونوں ہی کے محتاج ہوتے ہیں۔ انہی کی وہ نقالی کرتے ہیں ،اور انہی کے بل بوتے پر وہ آگے بڑھتے ہیں ۔ان معنوں میں خاندان ایک عام گھر نہیں بلکہ ’’ انسان ساز کارخانہ‘‘ہے۔ معاشرے اور بزرگوں کےلئے اچھے انسان ڈھلنے کی ابتدا سی کارخانے سے ہوتی ہے ۔ انسان سازی ،ایک اہم فریضہ ہے ۔ کوئ معمولی بات نہیں !۔ ایک پوری نسل ہوتی ہے جو کردار و اخلاق سے مزین ہوکراوپر ابھرتی اورمعاشرے پراثر انداز ہوتی ہے ۔ اتنا اہم کارخانہ مگر اا سی قدر اس سے بے اعتنا ئی ؟ ۔ بدنصیبی کی بات ہے کہ انسان سازی کے اسی کارخانے کو والدین اب بہت معمولی اہمیت دینے لگے ہیں ۔ نہ وہ ان کی گفتگو کا خیا ل رکھتے ہیں ، نہ ان کے اردگرد موجود دوستوں کا جائزہ لیتے ہیں ، اورنہ دیکھتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی کہاں جارہی یا کہاں سے آرہی ہے ؟ ۔سب کچھ اس کی آزاد مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ’’بچوں پر زیا دہ روک ٹوک مناسب نہیں‘ ‘، آج کے مفکرین والدین کے کانوں میں سبق انڈ یلتے ہیں ۔ اسی لئے وہ اپنے بچوں کو ’’انسانی‘‘ شکل میں ڈھا لنے کی ضرورت سے بے نیا ز بھی ہوتے جارہےہیں ۔ پل گئے ،بڑھ گئے، جوان ہو گئے ۔ بس کا فی ہو گیا۔ مگر کاش کوئی سمجھا سکتا ، بتا سکتا کہ معاشرے کو ہر قسم کے آڑے ترچھے انسانوں کی نہیں بلکہ ہمدرد و اطاعت گذار انسانوں کی ضرور ت ہے۔ اور آج کے دور میں تو خصوصاً یہ بہت ضروری ہے۔ اگرانسانوں کی بھیڑ ہی اکھٹی کرنا مقصد ہو تو پھر تو وہ سب کچھ ہی پھاڑ کے کھا جا ئے گی، لُوٹ کے لے جائے گی۔

بد تمیز، اجڈ، نا فرمان ، بد کردار ، جھگڑا لو، اورزبان دراز نسل نے معا شرے کو کب سکھ اور چین دیا ہے؟ اور کب معا شرے کو ان کے ذریعے اطمینا ن حا صل ہوسکا ہے ؟ ۔بے جا لاڈ پیا ر دینا، ہر فرمائش کاپورا کرنا ، سونے کا نوالہ کھلا نا، اور سونے ہی کی نظر سے دیکھنا! ۔بھلا اس طرز زندگی سے کسی کو کہاں ا چھے انسا ن میسر آسکتے ہیں ؟۔ بچے کو تو پھر ابتدا ہی سے پیار ہوگا اپنے مفادات سے، ا پنے پیسو ں سے، اورا پنے کھانے پینے کی اشیا سے ۔ ہر معاملے میں وہ بس’’اپنا اپنا ‘‘ ہی سوچے گا خواہ کوئی دوسر ا کتنا ہی مصیبت کا مارا کیو ں نہ ہو۔ اولاد کی تربیت کے اصول تو وہ قد یم ہی درست تھے، سونے جیسے تھے۔ ’’کھلائو سونے کا نوالہ ۔ دیکھو شیر کی نگا سے‘‘ ! محلے کے تما م بزرگ ، محلے کے تمام بچوں کے بزرگ قرار پا تے تھے جس سے ہرچھوٹے بڑے کے ذہن پر ایک د یکھا اور ان د یکھا خوف ہمہ وقت سوا ر رہتا تھا ۔ وہ خوف جس سے ان گنت برائیوں سے لڑکے اور لڑکی بچے رہتے تھے ۔ آپ کو پتہ ہے کہ برائیوں سے بچے رہنے کا مطلب کیا ہوتاہے ؟َ۔ ایک اچھی فرماں بردارنسل ۔ با حیا۔ با اخلاق۔ سگھڑ، اور مہذب اولاد! جسے دیکھ کر وا لدین سکھ اور خوشی حاصل کرسکیں ۔کم عمری میں بچوں کی تربیت جب یو ں کی جا ئے کہ اسی کو شہنشاہ سمجھا جائے اور اسی کی فرمائش سر آ نکھوں پر رکھی جائے تو ظا ہر ہے یہ رویہ اس کے اندر خودسری اور طبقا تی صفت کو جنم دینے ہی کا سبب بنےگا۔

ایک اور پہلو خا ندا ن کوکمزور کرنے کا یہ ہے کہ ما ں اور باپ دونوں ہی ملازمتوں میں مشغول ہوجائیں اور بیٹے یا بیٹی کے لئے وقت بہت کم نکا ل پا ئیں ۔ اس صورت میں بچے ، ماں اور باپ دونوں ہی کی محبت کو ترسیں گے اور پھرتربیت کی کمی کا مسئلہ پیدا کریں گے ۔ نا نا اور دادی کی گودوں میں پلنے والے ، اور خود اپنے ما ں با پ کی گود وں میں پلنے والے ماحول میں بہرحال بہت فرق ہے۔یا د رکھنےکی بات یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیم جس کی آجکل ضرورت ہے، بنیا د ی طور پر نوجوانوں کو پرانی قدروں اور مذہب کا باغی بنارہی ہے۔ جد ید تعلیم کی صفت ہی یہ ہےکہ وہ ہمارا سب کچھ چھین کے لے جاتی ہے۔ اس کےاندروفا نہیں ہے ۔ اس لئےاعلیٰ تعلیم دلاتے وقت بچوں کی جانچ پڑتال ناگزیرہے۔

کتنی حیرت کی با ت ہے کہ کم از کم د س گیا رہ سالوں تک والد ین کا محتاج رہنے کے بعد بھی بچہ ان کا باغی ہو جا ئے ۔ جو بات بھی والد ین کہیں ، انہیں ماننے سے انکا ر کردے ۔ حیر ت کی با ت ہے کہ ابتدا ئی سالوں میں تو بچے اور بچی کی زبان پر سدا ماں باپ کا ا نجا نا خوف طاری رہے اور وہ یہی کہتے رہیں کہ’ ’ابو ماریں گے۔ امی ڈانٹیں گی‘‘۔ مگر بعد میں و ہ انہی ماں باپ کا دھیلے برابر بھی لحاظ نہ کریں۔ بلکہ ا لٹا انہی کو کم عقل اور بے وقوف سمجھنے لگیں ۔تو ہمیں سمجھ جا نا چا ہئے کہ تربیت میں کچھ کمی رہ گئی ہے ۔ یا د درکھنا چا ہئے کہ تربیت میں سب سے بڑا عنصر د ینی اسبا ق کا ہے ۔ ہر قسم کے فتنوں میں دین ہی ہماری مددکو آ تا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جسے والد ین با لکل نظر انداز کرچکے ہیں ۔ دوئم وا لد ین کا بچوں کے ساتھ میل ملاب اور نشست و برخواست بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ بچوں کو وقت نہ دیا جا ئے اورا نہیں اپنی مرضی کی زندگی (یازیا دہ بہتر الفاظ میں ، دوستوں کی مرضی کی زندگی) گزارنے کی چھٹی دے دی جائے تو پھر مستقبل میں خطرنا ک حالات کا سا منا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

اگرایک گھر میں تین بیٹے اور دوبیٹیا ں والدین کے ساتھ ایک ہی چھت تلے بیس اکیس برسوں تک ساتھ رہتے رہےہوں ، پھر شا دی کرکے بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوجا ئیں۔ باقی رہ جا ئیں بیٹے تو دلہنوں کے آنے کے بعد وہ تینو ں بھی ماں باپ کو چھوڑ کر علیحدہ گھر بسا لیں عام طورپر منظر چل ہی رہا ہے۔ تو اب گھرمیں دو ہی بزرگ اکیلے با قی رہ جا تے ہیں جن کی دیکھ بھا ل کے لئے اب کوئی نہیں بچتا ۔ وہی اب اپنے ان گنت مسائل کو بھگتیں، اولاد تو اب دستیا ب نہیں ہوگی ۔ بعض ایسے د ردنا ک معاملات بھی سامنے آتے ہیں جب اکیلی ماں تک کو بھی بیٹا اور بہو ساتھ رکھنےکے روادا ر نہیں ہوتے۔ بلکہ اس سےبھی آگے بڑھ کر اولاد نہ صرف اپنے وا لد ین پر ہاتھ ا ٹھا نے سے نہیں چوکتی۔ بلکہ مزید آگے بڑھ کر مکان ہتھیا لینے کی خاطر سا زشین کرکے وا لدین کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں رہتی ۔ ہر گلی اور ہر محلے میں یہ ا لم نا ک داستا نیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ سو یہ سب شاخسانے ہیں والدین کی’’ زیادہ بصیرت ‘‘کا ،یا ان کی ’’بے بصیرتی ‘‘کا۔ ہمارے ہاں یہ تماشےآ ئے روز ہی ہورہے ہیں ۔ نہ جانے کتنے ہی مقد مےہیں جو وا لد ین اپنے نا فرمان و ضدی بچوں کے باعث عدا لتوں میں بھگت رہے ہیں۔

البتہ جو وا لدین ا پنے بچوں کی تربیت اور چا ل چلن میں ابتد ا ہی سےمنا سب دلچسپی لیتے ہیں ، انہیں قرآن و احادیث کی کلاسوں میں بھیجتے ہیں ، ان کے بچے (بیٹے اور بیٹیا ں) عموماً بہتر شکل کے نمودار ہوتے ہیں ، والدین جن سے ٹھندک حا صل کرتے ، اور جو والدین سے ٹھنڈک حا صل کرتے ہیں ۔ اس گئے گذ رے دور میں بھی ایسی مثا لیں کا فی مل جاتی ہیں جو اپنے والدین کی تنہا ئی و ضعیفی کے با عث بیر ون ملک کی ملازمتیں چھوڑ کر واپس لوٹ آ تےہیں یا ملازمت قبول ہی نہیں کرتے ۔ بے شک ا س میں کمال لڑکے کی بیو ی کا بھی ہے جو ا س کٹھن فیصلے تک پہنچنے میں اپنے نوجوان شوہر کی شریکِ کار ہوتی ہے ۔

یا دد رکھنے کی بات ہے کہ ایک جانب( حدیث کے مطابق ) والدین ہی اولاد کے لئے جنت و دوزخ ہوتےہیں ۔اوردوسری جانب (آ ج کے ماحول میں) اولاد بھی والدین کے لئے جنت و دوزخ بن جا تی ہے۔ سوآج آپ یہاں ایسا کچھ بوکے جا ئیں کہ کل بہتر فصل کا ٹ سکیں !

RAZIUDDIN SYED
0331-2646109

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں