مسلمانوں کی نظریاتی اساس اسلام ہے ۔ ایک مسلمان کسی ایسے سیاسی نظام کو نہیں اپنا سکتا جو مذہب کی بندش سے آزاد ہو یعنی دین کے بغیر ہم مسلمان کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں چاہے وہ معاشرت ہو یا سیاست یا تجارت ۔ اسلام کا حکومت و قیادت اور سیاست سے وہی تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بھی بڑی سے بڑی حقیقت کو ہوسکتا ہے ۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا ایک بہت بڑا حصہ مذہب، سیاست و حکومت کے تعلق کو ثابت کرتا ہے ۔ اللہ کریم کا زمین پر انبیاء بھیجنے کا مقصد صرف زمین تک، زمین کے باسیوں تک اپنا پیغام پہنچانا نہیں تھا بلکہ انہیں بھیجنے کا اصل مقصد زمین پر خدا کے احکامات کا عملی طور نفاذ کرنا اور کروانا تھا، منکرین کے خلاف ٹکر لینا تھا، خدا کا قانون زمین پر رائج کرنا تھا اور سیاست سے دور رہ کر نفاذ اور راج ممکن ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر سیاسی نہیں تھے یا اولیائے کرام اور علماء و مشائخ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ، انہیں سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ کیا کسی حکمران کا کارکن غیر سیاسی ہو سکتا ہے؟ کیا کسی بادشاہ کے متوالے غیر سیاسی ہو سکتے ہیں ؟ کائنات کا سب سے بڑا بادشاہ کون ہے؟ کائنات کا سب سے بڑا حکمران کون ہے؟ کائنات کا سب سے بڑا مدبر، تدبیر و انتظام کرنے والا کون ہے؟ یہ کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ، مدبر و تنظیم کرنے والے کے کارکن ہو کر اپنے اوپر غیر سیاسی ہونے کا لیبل لگاتے ہیں ۔ یہ اس سب سے بڑے بادشاہ کے کارکن ہو کر اس کی کائنات میں اس کے احکام رائج کرنے کی سیاست نہیں کرتے ۔ یہ سیاست تو انبیاء کا وظیفہ رہا ہے یہ جس سے الگ تھلگ ،بے وقعت و بے اختیار ہو کر بیٹھے ہیں ۔ احادیث مبارکہ اور ان کی تشریحات میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سیاست انبیاء اور علماء کا وظیفہ ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ۔
کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء
’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے‘‘ ۔
جتنی امتیں بھی گذری ہیں رب کائنات نے ان کی قیادت و سیاست ، امور ریاست ان کے انبیاء کے ہاتھوں میں دی تھی اور وہ انبیاء اسے خدا کے احکام و ہدایات کے مطابق سر انجام دیتے تھے گویا کہ انبیاء خدا کی کائنات میں خدا کے متعین کردہ نظام حیات و مملکت کے نفاذ کے ذمہ دار و نگران تھے ۔ اب کیونکہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضور نبی کریم ﷺ پر بند کر دیا گیا ، آپ ﷺ رب کی طرف سے ا س کی کائنات کے آخری منتظم و نگران ہیں اور آپ ﷺ نے تمام ذمہ داریاں احسن طریق سے سر انجام دیں ، دین کی تبلیغ بھی کی، سیاست و قیادت بھی کی، جنگیں بھی لڑیں ، سرحدوں کا بھی پہرہ دیا، دیکھ بھال بھی کی،معاشرہ سے برائیوں کا بھی قلع قمع کیا، عدل قائم کیا، انصاف کا بھی بول بالا کیا ۔ بے سہاروں ، لاچاروں کو سہارا بھی دیا ۔ مساوات قائم کی، اخوت پیدا کی، بھائی چارہ کو فروغ دیا، شریعت و قانون کی نظر میں سب کو ایک کیا ۔ کیا یہ سب سیاسی و ریاستی امور نہیں تھے جو آپ ﷺ ساری زندگی ادا کرتے رہتے اور اپنے بعد اپنا جانشیں ، اپناوارث علماء کو ٹھہرا کہ یہ میرے کام کو اسی طرح جاری و ساری رکھیں گے ۔ کیا علماء و مشائخ وہ جانشینی نبھا سکے؟ وہ ذمہ داریاں پوری کر سکے؟ کیا وہ سلسلہ ، وہ معاشرتی روایات، وہ معاشرتی و اخلاقی پاکیزگی ، وہ معاشرتی امن، وہ معاشرہ کی پاکدامنی اسی طرح جاری و ساری رکھ سکے جو حضور رسالت مآب ﷺ نے انہیں وارثت میں دی تھی؟ انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی وراثت میں مال اور جائیدایں نہیں چھوڑیں ، علم اور قوم کی قیادت ، سیاست و سیادات چھوڑی ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
’’ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہو ں گے‘‘ ۔
اب بنی اسرائیل کے نبیوں نے تو ساری زندگی خدا کی حاکمیت قائم کرنے کی سیاست کی ہے، ساری زندگی قوم کی قیادت کی ہے ۔ نبوت ملنے کے بعد قوم کی قیادت بنی اسرائیل کے انبیاء نے اپنے ہاتھوں لی حتیٰ کہ وقت کے بادشاہ کو بھی نبی کا حکم تسلیم کرنے کا کہا گیا کہ وہ نبی کے آگے سر تسلیم خم کر دے ۔ اب جب ہماری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ قیادت کا کوئی بھی منصب ہو اس کے حقدار علماء ہیں ۔ علماء کی موجودگی میں کسی اور کو سیاست و قیادت، راہنمائی و راہ گیری کا قطعاً کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ اللہ کریم نے روز ازل سے ہی قیادت و سیادت، اختیار و حکومت کا منصب رکھا ہی اپنے نیک اور صالحین بندوں کے لئے ہے ۔ قرآن کریم میں حکم خداوندی ہے ۔
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ
اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَo
’’ اور بیشک ہم نے ذکر ( پہلی آسمانی کتاب نصیحت ےعنی تورت) کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک اور صالح بندے ہوں گے ۔ ‘‘
( سورہ الانبیاء 21: 105)
مسجد و منبر کی قیادت و امامت علماء کے پاس، نماز کی قیادت علماء کے پاس، حج طواف و عمرہ کی قیادت علماء کے پاس،سفر آخرت (جنازہ ) کی قیادت بھی علماء کرتے ہیں ۔ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھ کر میدان محشر کے سفر کی قیادت بھی علماء کریں گے ۔ ہر قوم ، قبیلہ، محلہ و قصبہ کے لوگ اپنے اپنے امام جس کی اقتداء میں وہ دنیا میں نمازپڑھا کرتے تھے، اس کی قیادت میں اس کے پیچھے ہوں گے ۔ اگر دنیا میں کوئی حکمران و بادشاہ ہے تو وہ بھی آخرت میں اپنے امام کے پیچھے کھڑا ہو گا ۔ گویا وہ علماء ہی ہیں جن کی قیادت دائمی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ جب خداوند تعالیٰ نے قیادت و اختیار ، ہدایت و رہنمائی کا منصب رکھا ہی اپنے نیک، صالحین، متقی و پرہیزگار بندوں کے لئے ہے تو وہ دنیا میں قوم کی قیادت سے کیوں پیچھے ہیں ؟ کیوں ہاتھ دھو کر بیٹھے ہیں ؟ وہ دنیا میں قوم کی قیادت اپنے ہاتھوں لے کر دین کا پابند اور تابع کیوں نہیں کرتے؟قوم کو دین کا پابند کرنا اور احکامات خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کروانا علماء کی ذمہ داری ہے اور اس کی آخرت میں ان سے پوچھ گچھ ہو گی ۔ سوال ہو گا، پوچھا جائے گاکہ تم تو میرے فرامین جانتے تھے اور میرے تابع تھے ۔ کیا تم نے اس تابعداری کو اپنی ذات تک محدود رکھا اور دوسروں سے کروانے کی کوئی کوشش، کوئی سعی و حرکت نہیں کی ؟تم نے قوم سے میری تابعداری کیوں نہیں کروائی؟
خدا کا ایک فرمانبردار بندہ ہی خدا کی فرمانبردار قوم پیدا کر سکتا ہے ۔ خدا کا ایک تابع دار بندہ ہی حقیقی معنوں میں قوم سے خدا کی تابعداری کر وا سکتا ہے ۔ خدا سے ایک ڈر رکھنے والا بندہ ہی قوم کو خدا سے ڈرنے والے راستے پر ڈال سکتا ہے ۔ اور دنیا میں خدا سے سب سے زیادہ ڈرنے والے کون لوگ ہیں ؟ اس پر کسی سے گواہی و شہادت لینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ کون خدا سے کتنا ڈرتا ہے اس پر قرآن کی شہادت کی موجود ہے ۔
اِنَّمَا یَخْشِی اللَّہُ مِنْ عِبَادِہْ الْعُلَمَآءُ
خدا کی مخلوق میں سے خدا سے سب سے زیادہ ڈر والے علماء حق ہیں ۔
(سورہ فاطر : 28)
اب جب خد اکے نزدیک سب سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہیں تو علماء ہی ایک خدا سے ڈرنے والی قوم پیدا کر سکتے ہیں ۔ علماء ہی سب سے بہتر اور زیادہ احسن طریق سے قوم کی قیادت و رہنمائی کر سکتے ہیں اور معاشرہ کو رب کے احکامات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔ خدا کے احکامات کا نفاذ کر سکتے ہیں ۔ جب قوم کے حکمران خدا سے ڈرنے والے ہی نہیں ہو ں گے تو وہ قوم کیسے خدا سے ڈرنے والی ہو گی؟وہ قوم کیسے خدا کے احکامات کے آگے سر تسلیم خم کر دے گی جس کے حکمران ہی اس کے نافرمان، خائن و بدکارو بدکردار ہوں ؟ آج کا منظر آپ کے سامنے ہے ۔ آج قیادت و منصب، عہدہ و اختیار خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے پاس نہیں تو قوم کی مجموعی صورت حال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ جب قیادت و اختیار خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے پاس آئے گا تو قوم بھی خدا کا ڈر رکھنے والی بنے گی وگرنہ یہ کسی بھی صورت ممکن نہیں ۔