رضی الدین سید ۔ کراچی
ہمارے ہاں عرصہ دراز سےمذہبی جنونیت اور پاگل پن کی ایک دائمی کیفیت سی طاری ہوتی جارہی ہے۔ تاہم یہ صرف اب ہمارا ہی مسئلہ نہیں رہا ہے۔بلکہ پوری دنیا ہی میں ، بشمول مغرب و امریکہ، یہ جنونیت اور پاگل پن اندر تک داخل ہو چکی ہیں۔ یہ جو مغربی اتھیسٹس (دہرئے) لوگ ہیں، جو مذہب کو دھیلے کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے، ایسے موقعوں پر ان کی مذہبیت بھی دفعتا جاگ اٹھتی ہے۔ نیوزی لینڈ کا سانحہ ، مذہبی پاگل پن سانحات میں سے ایک زندہ و بہیمانہ مثال ہے ۔ ایک جنونی مقامی فرد نے دو مسجدوں کے اندر گھس کر پچاس مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔ ادھرفرانس میں زیر تعمیر ایک بڑی مسجد کی نگراں مسلم خاتون کو بھی مقامی شہری نے گزشتہ دنوں، دھمکی آمیز پیغامات بھیجے ہیں کہ یا تو تم عیسائی ہوجائو ،جو ظاہر ہے تم لوگ نہیں ہوگے، تو ہمارا ملک فرانس چھوڑ دو۔ اور تمہاری مسجدوں کی بھی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح وہاں ایک اور سانحہ سامنے نظر آرہا ہے۔ باہر سے یہ ممالک افرادی قوت بھی حاصل کرتے ہیں اور پھر انفرادی و مذہبی آزادی سے اسے محروم بھی رکھتے ہیں ، تو ان کے انصاف کایہ کیسا نظام وہ اپنے ہاں رکھتے ہیں؟
مذہبی پاگل پن کی ایک اوربد ترین مثال بھارت کی ہے جہاں آئے دن تنہا یا اجتماعی طور پر مسلمانوں کی زندہ “لنچنگ” کی جاتی ہے اور حکومت جس کی جانب سے نظریں پھیر لیتی ہے۔ 1992 میں ہندو جنونیوں نے سینکڑوں سالہ تاریخی بابری مسجد صرف اس بنیاد پر شہید کردی تھی کہ اس کی تعبیر بابر بادشاہ نے کروایئ تھی۔ ہندو جنونیوں کا جنون تب دیکھنے کے قابل تھا۔
ادھر برما میں بھی برمیوں نے قدیم روہنگیا مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ۔حالانکہ برمی ابادی ، اس بدھ مت مذہب کی پیرو ہےجس میں کسی کیڑے کو مارنا بھی حرام ہے۔
یہ پہلو بھی مدنظر رہے کہ پاکستان کے مذہبی طبقے واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ ہندو اور عیسائی معاملات میں ہماری حکومتیں، کچھ اسلام بیزاری اور کچھ مغربی طاقتوں کے خوف کے سبب، خود مسلمانوں ہی کو مورد الزام ٹھہراتی اور اپنی ہمدردیاں بلاوجہ ہی اقلیتوں کی جانب منتقل کرتی ہیں۔ نتیجتا مذہبی طبقوں میں غصہ بڑھتاہے اور ان کارخ منفی رویوں کی جانب ہونے لگتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اگر اپنی اخلاقی اور دینی ذمے داریاں پوری کرتیں تو مذہبی طبقے دھرنوں اور جلوسوں کی طرف مائل نہ ہوتے۔ چنانچہ ان سانحات سے ہماری حکومتیں خود کو کیوں کر بری الذمہ قرار دے سکتی ہیں
سانحات تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور خدا نخواستہ آگے بھی شاید ہوتے رہیں۔ کیونکہ حکومتوں کی جانب سے مستقبل کے لئے کوئی مضبوط و قابل عمل پالیسی طے ہی نہیں کی جاتی ۔
دوسری جانب علما کے کندھوں پر بھی بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ان سے دست بستہ عرض کی جانی چاہئے کہ بزرگو، بہت ہوچکا۔ اب ملت اسلامیہ میں نفرت و تفرقہ کی جگہ آپ یگانگت و یکجہتی پیدا کریں۔ شعلہ بیانی ترک کرکے شیریں بیانی اختیار کریں اور اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سرخ روئ پائیں۔
ہمیں مل جل کر ہی، اور سخت قوانین لا گوکر کے ہی اس تشدد پسندی کو روکنا ہوگا۔ ورنہ ملک و قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ یا د رہے کہ نیوز ویک لندن نے اپنے تازہ ترین شمارے میں سیالکوٹ کی اس درندگی کو اپناٹائٹل مضمون بنایا ہے اور سر ورق پر لکھاہے کہ دنیا کا سب سے خطرناک ملک عراق نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ اس طرح اس نے ایک برائی عالمی طور پر ہمارے نام پر ثبت کردی۔