رضی الدین سید
تصوف کی راہ کا چلن،جسے زیادہ تر بر یلوی مکتبہءفکرکی پہچان سمجھاجاتاہے، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ دیو بندی مسلک میں بھی عام ہے ۔اول توملک میں دہشت گردی کے سبب ،اور دوئم لادینی و دین بیزاری کے باعث ۔وطن ِعزیز میں اسے دانستہ طور پر رائج کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دین کا سب سے اچھا راستہ تصوف ہی ہے کیونکہ اسی میں انسان کا تزکیہ ہوتاہے اور وہ دہشت گردانہ طریقوں سے دوری اختیار کرتا ہے ۔ تصوف کے حامی حضرات موقف رکھتے ہیں کہ اگرتصو ف یا سلوک کی راہ کو اپنا یا جائے تونہ صرف ذاتی زندگی میں، بلکہ وطنِ عزیز میں بھی سکون ہی سکون کا دور دورہ ہوگا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیئے باہر سے بھی متصوّفین برآمد کئے جاتے ہیں اور ذرائع ابلاغ سے بھی ان کا پرچارِ مسلسل کیا جاتا ہے۔تاہم کو ن نہیں جانتا کہ ادھر ہزاروں عیسائی پادری رپہبانیت (یا تصوف) کی راہ میں مصرو ف ِ عمل رہے تھے اور ادھرا نہی پادریوں کی”اپنی سلطنت “میں سیاست اپنا بھیانک کھیل بھی کھیل رہی تھی۔ پادریوں کی ناقابل بیان مشقت ِصوفیت سے مملکت کا کچھ بھی تو بھلا نہ ہوسکاتھا!۔
تصوف کیا ہے اور اس کے اندا زو اطوار کیا ہیں؟۔ کہا جاتاہے کہ نفس کو مارنے اور جسمانی مشقتوں کا دوسرا نام ہی تصوف ہے۔ انسان اپنے نفس پر جتنا عبور حاصل کرے ،اتنا ہی اچھا وہ بندہ ءرب اور انسان بنے گا ۔صوفیت سبق دیتی ہے کہ انسان کو نہ تو کسی سے لڑناچاہئے،اورنہ اپنے حق کے لئے بہت زیادہ جدوجہد کرنی چاہئے ۔بلکہ ہوسکے تو اپنے حق کی بھی قربانی دے دینی چاہئے۔ اس مقصد کے لیے تصوف و سلوک میں مختلف قسم کے مجاہدے اور ریاضتیں ہیں اور پیر و بزرگ کے ہاتھوں پر بیعت کامل ہے۔ اپنے نفس کو اگرکسی ولیءکامل کے نفس میںشامل کردیا جائے تو یہ گویا تصوف کی راہ پر چلنا ٹھہرے گا ۔ دنیاکی رغبت کم رکھو ، لباس کم پہنو، کھاﺅ پیوکم، اور سوﺅ کم!۔ چنانچہ اسی ضمن میں ذکر اذکار کی محفلیں بھی برپا کی جاتی ہیں،چلّے بھی کاٹے جاتے ہیں، قوالیاں بھی گائی جاتی ہیں ، اور دھمال بھی ڈالے جاتے ہیں۔ زندہ ہو تب بھی، اور بزرگ وفات پاجائے تب بھی۔ مرادیں محض اسی ولی ءکامل سے مانگنی چاہئیںاور دھیان ہمہ وقت اسی کا ذہن میں رکھنا چاہئے۔ کسی بھی بگڑ ی ہوئی صورت ِ حال کو صرف وہی بہتر بنا سکتے ہیں۔ مراقبے اور’ اللہ ہو اللہ ہو ‘ کے ذکر میں بعض دفعہ پوری پوری رات بھی گزر جاتی ہے۔چرس اور بھنگ پینے والے لوگ اگرمزاروں پر ڈیرہ ڈالے رہیں تب بھی وہ تصو ف کے دائرے میں شمار کئے جائیں گے خواہ وہ وہاں ایک وقت کی نماز بھی نہ پڑھیں ۔بس ”حق اللہ ،حق سائیں،اور علی دا پہلا نمبر ‘ ‘ کے نعرہءہائے مستانہ ہی لگاتے رہیں۔ لمبے پٹے بال،قوالیاں ،مخصوص ٹوپیا ں، مردوں کے ہجوم میں دوپٹے سے بے نیاز، بال بکھرائی عورتوں کے دیوانہ وار دھمال،اور ہوتے ہوتے خود اپنے آپ کو بھی’ انا الحق‘(میں بھی اللہ ہی ہوں ) کے درجے پر قرار د ے لینا وغیرہ، یہ ساری حرکات تصوف ہی کے دائرے میں شمار کی جاتی ہیں۔ ایک مخصوص وقت میں سب سے کٹ کر تنہا محو ذکر رہنا، اور درمیان میں مداخلت پر کسی سائل کو جھڑک کر جواب دینا وغیرہ بھی تصوف کے ناگزیرحصے ہیں۔
ابھی چند سال پہلے سیوہن سندھ میںجوبم دھماکے ہوئے تھے جس میں کئی جانیں بیک وقت رخصت ہوئی تھیں، ملک کی ایک معروف رقاصہ نے اس کے اثرات زائل کرنے، اور دہشت گردی کو دو بدو جواب دینے کے لئے مزار پر جاکر خود دھمال ڈالا تھا۔یہ گویا اس صوفی بزرگ کو ”سالِکانہ“ خراج ِ عقیدت پیش کرنا اور مراد اس سے اس ’رقاصہ‘
کی، تصوف کو دوبارہ زندہ کرنا تھا۔یہ تو خیر ان لوگو ں کی بات ہے جن کے نزدیک دین عموماََ رسو م و رواجات سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اپنے آپ کو درست رکھنا ہی ان کے نزدیک سب کچھ ہے۔ انقلابی جدو جہد ان کے نزدیک روحانی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔
تاہم حیرت اس پر ہوتی ہے کہ تصوف اورسلوک کی اس راہ پر وہ لوگ بھی کامل درجے اطمینا ن و سکون سے محوِ سفر نظر آتے ہیں جو عقل و شعور کی اپنی ابتدائی زندگی میں اسلام کو باقاعدہ انقلابی ، متحرک، وسیاسی دین گردانتے رہے تھے ، جس مقصد کے لئے انہیں کبھی مال و جان کی قربانیاں بھی عزیز رہی تھیں،اور اپنے متبعین کو بھی وہ جس مقصدکے لئے مستقل درس و وعظ دیاکرتے تھے۔ گویاان کی فکر کووہ خود ہی میدان ِ جہاد کی بلندیوں پر پہنچایا کرتے تھے۔ مگر کافی عرصہ گزرجا نے کے بعد پھر کہیں جاکران پر انکشاف ہو نے لگتا ہے کہ انقلاب و سیاست کی جس معروف راہ پر وہ اب تک چلتے رہے ہیں،وہ ان کی بس ایک بے فائدہ سی مشق ہی رہی تھی ۔ اس مشق سے،ان کے بقول، انسان سدھار کی بجائے بگاڑ کی جانب زیادہ مائل ہوتاہے۔” مومن کی زندگی جہاد میں نہیں ، مراقبے و سلوک میں پوشید ہ ہے۔اور وہ سابقہ زندگی جو ا نہوں نے انقلابی ومتحرک انداز سے گزاری تھیِ ، ضائع گئی ہے“، وہ گوےا دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے۔
کل تک یہی لوگ تھے جو کہا کرتے تھے کہ بغیرانقلابی روح اورجدو جہدو جہاد کے دنیا میں کہیںاسلام غالب نہیں آسکتا۔ اپنے متبعین کو سکھا یا کرتے تھے کہ ایک تڑپ،ایک ولولہ، ایک داعیانہ جدوجہد،اور ایک کامل بے قراری ہی دراصل اسوہءحسنہ ہے۔” دعوت اور دعوت !۔ اسلامی انقلاب کا راستہ اس کے سوا اورکوئی نہیں ہے۔ اور اگر اس راہ میں جان بھی دے دی جائے تو وہ انقلاب کا اعلیٰ ترین درجہ ہے“۔ وہ اس مصرعے کے قائل تھے۔ کہ ”بولیں اماں محمد علی کی ۔۔۔ جان بیٹا خلافت پہ دے دو“۔اپنی عمرعزیز کا ایک بہت بڑ احصہ انہوںنے اسی جدوجہد اور وعظ وتلقین میں گزارااورمارنے مرجانے والے لوگوں کی ایک صف کی صف تیا ر کی۔ لیکن پھر ایک دم ان کا دھیان کسی اور فلسفے کی جانب مائل ہوگیا ۔ وہ مہمیز انگیز خیالات کہ
روح ِ امم کی حیات ۔۔۔۔کشمکش ِ انقلاب!
نہ ہوجس میںانقلاب ،موت ہے و ہ زندگی
انہیں پھر فرسودہ نظرآنے لگے۔ان کا خیال پھر یہ ہوگیا کہ روحانیت کا درجہ اس راہ میں بہت گھٹَ جاتا ہے اور سیاست ہمہ وقت سر پر سوار رہنے لگتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی اسلامی ملک میں اسلامی انقلاب لا نا ہو تو اس کا پر امن راستہ فی الوقت تو سیاسیات ہی سے ہوکر گزرتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں تو ہر ہر مقام ا ور ہر ہر شعبے میں سیاست کی گندگی لتھڑی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے انقلابی خیالات کے حامل لوگوں کو اس سیاست میں خواہی نا خواہی ملوث ہونا ہی پڑتا ہے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس کے باعث روحانیت یاتزکیہ گھٹتے گھٹتے کم و بیش محضمذہبی رسوم کے درجے ہی پرآکے رک جاتے ہیں۔ نہ اشراق،نہ شش روزے ، نہ تہجد، نہ ذکر اذکار،نہ حقوق العباد،نہ مطالعہءحدیث و قرآن،اور نہ صدقہ و خیرات!۔غرض سب کچھ محض نمائشی سا رہ جاتا ہے ۔ایسی مشق جس سے انسانی خیالات و اعمال کو کوئی خاص جلا نہیں ملتی۔ ایک داعی بھی کم و بیش عام سافردہی نظر آتا ہے۔
تاہم قابل ِغور بات یہ ہے کہ بنی ﷺ سے ایسی کوئی بھی عبا دت ثابت نہیں ہے جو دنیا ،یا دنیا کے لوگوں سے کٹ کر ادا کی جائے ۔جو کچھ بھی کیا جائے ،دنیا کی گندگی ہی میں رہ کر کیا جائے ، اس کے اندر لتھڑ کر ہی کیاجائے ۔ بلکہ زیادہ بہتر تویہ ہے کہ خود اس گندگی ہی کو دھونے کی جدوجہد کی جائے ،خواہ اس کے لئے جان و مال کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑجاءے ۔وہ عبادت جو دنیا سے کٹ کراورمراقبے اور مزاروں پر ڈیرہ ڈال کر اداکی جائے ، نفس کی صفائی اس عبادت سے کبھی ہو ہی نہیں ہوسکتی۔ نبی ﷺ نے یہ تاکید ضرور کی ہے کہ قبروں پر جاﺅ، لیکن نہ اس لئے کہ وہاں دھوم دھڑکا کیا جائے، بلکہ اس لئے کہ ان قبروں سے انسان موت کو یادکرسکے۔ جن قبرستانوں میں دن کی روشنی جیساچراغاں ہو ، جہاںڈھول اور تاشے مسلسل بجائے جائیں، دھمال ڈالے اور رقص کےے جائیں، عورتیں بے محابا گھومیں پھریں، اورجہاں ایک جشن کا سا ایک سماں ہو ، اس سے نفس آخر کیاسبق لے سکتا، اور انسان کس قدر روحانی پاکیزگی حاصل کرسکتا ہے؟، ایک سادہ سا سوال ہے ۔اسی طرح محض تلاوت ِ قرآن سے بھی وہ فیض حاصل نہیں کیاجاسکتا جسے کوئی مجاہدجنگ وجہاد سے حاصل کرسکتاہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
الفاظ ومعانی میں تفاوت نہیں، لیکن
ملا کی اذاں اور ہے، مجاہد کی اذاں اور
غاروں اور پہاڑوں کی رُہبانیت(ےا موجودہ اصطلاح میں تصوف) تودراصل ہندو مت اور عیسائیت کاسکہ ءرائج الوقت تھی ۔ عیسائیت میں تارک الدنیا لوگوں کی کثرت تھی۔اسی لئے انہی جیسے لوگوں کو دیکھ کر حضرت عمر فاروق ؓ نے کبھی کہا تھا کہ ” اس شخص کو دیکھو جس کی آخرت بھی گئی اور دنیا بھی گئی“۔ علامہ اقبا ل ؒ نے کہا تھا کہ
حکمت در دین عیسی ،غار وکوہ
حکمت در دین ما ، شان وشکوہ
یعنی عیسوی دین میں تزکیہ وتربیت کے لئے غاروکوہ کا راستہ اپنا یا گیاہے۔لیکن ہمارے دین میںتوحکمت ’شان و شکوہ‘ کی ہے۔ ہم میداان چھوڑ کرنہیں جاسکتے۔بھاگ نہیںسکتے۔ میدان کو فاسقوں اور فاجروں کے لئے کھلا نہیںچھوڑ سکتے۔فرمایانبی علیہ الصلوٰة و تسلیم نے کہ ’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے اور ہمارے دین کی رُہبانیت جہاد ہے‘۔ اس بات کی تشریح نسبتااََیک حدیث سے مزید بہتر ہوتی ہے۔ ایک با ر آپ کسی غزوے سے لوٹ رہے تھے ۔ چلتے چلتے صحابہ کرام ؓ جب ایک نخلستان پر پہنچے تو وہاں کا سکون اور ہریالی دیکھ کر کسی صحابی ؓنے نبی ﷺ سے اظہا ر ِ خیال کیا کہ ’یا رسول اللہ میں یہیں رہ جاتاہوں ۔ دن رات یہاں رہ کر اللہ کی یاد میں مشغول رہوں گا‘۔ جواب میںآپ ﷺ نے فرمایا، او روہی ہماری تمام گفتگو کا نچوڑ ہے، کہ دین الگ تھلگ رہ کر عبادت کرنے کا نام نہیں ہے۔ زندگی کے مسائل میں گھر کر ہی تقویٰ اختیا رکیا جاسکتا ہے۔(مفہوم)
دینِ اسلام کی نوعیت یہ ہے کہ وہ محض انفرادی اصلاح کا قائل نہیں ہے۔ بلکہ ہر مسلمان پر فریضہ قرار دیتا ہے کہ نہ صر ف امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر درست کیا جائے بلکہ تما م دنیاکی اصلاح کا بیڑہ بھی اٹھایاجائے ، اس کے لئے تمام توانائیاں صر ف کی جائیں،حتی ٰ کہ اس کے لیئے جان بھی دے دی جائے جو اس جدو جہد کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ہمارا دین سرزمین عالم پر اپنا نفاذ چاہتا ہے۔ اس کی فطرت ہی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کررہے ۔ چنانچہ تمام انبیاءنے بھی زندگی اسی مقصد کے تحت گزاری ۔نبی ﷺ بھی جب غارِحرا سے ایک بار باہر آگئے تو لوٹ کر پھر کبھی واپس غار حرامیں نہیں گئے۔اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے انہوں نے چوٹیں سہیں، زخم کھائے اوردربدری اختیا رکی ۔لیکن کبھی جنگلوں اور پہاڑوں پر دوبارہ واپس نہیں گئے۔ یہی تعامل ہمارے صحابہ ءکرامؓ اور تابعین کرام ؒکا بھی رہا ہے۔اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے۔!
پاﺅں شیروں کے بھی میدااں سے اکھڑ جاتے تھے
ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لئے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لئے
مگر معذرت کہ تصوف اب نام رہ گےا ہے اس کا کہ جو کچھ بھی فساد دنیا میں ہورہا ہے ، صوفی کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔ کہ یہ اس کا مسئلہ ہی نہیںہے۔ علامہ اقبال نے زور دے کر یہ بات کہی تھی کہ
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
اور تو فقط اللہ ہو ، اللہ ہو، اللہ ہو۔۔۔۔!
اسلام کایہ جہادی نقطہءنظر ہی ہے جسے دماغوں سے اوجھل رکھنے کی خاطر ہماری حکومتیں ملک میں تصوف کو رائج کرنے کے لئے اےڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔کیونکہ اس کے باعث حکومت کرنے میںانہہںکوئی بڑی رکاوٹ باقی نہیں رہ جاتی، اور ان کے ملک دشمن ،عوام دشمن،اور دین بیزار رویوں کے بارے میں ایوان ِعلما ءسے پھر کوئی فتوے صادر نہیںہوں گے۔کیونکہ مجاہدوں اور ریاضتوں کے باعث وہاںاب سناٹا ہی سناٹا ہوگا! دوسرے ممتاز متصوفین کی مانند(اصلاح کی خاطر) ہمارے ایک مخلص مصنف بھی اسی نکتے پر زور دیتے ہیں کہ اگر اپنی و معاشرے کی اصلاح مقصود ہے تو تصوف اور مجاہدے ہی کی راہ اپنانی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر صحیح اور نام و نمود سے ماورا ہوکر کوئی تصوف کے ذکرو اذکار کا راستہ اختیار کرے اور لا الہ کی ضربیں لگائے تو ممکن نہیں ہے کہ اس کی باطنی اصلاح نہ ہوپائے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر اس کے باوجود کوئی فرد یا معاشرہ درست نہیں ہوپاتا تو دراصل اس میںاس فرد یا معاشرے کی نیت کا فتور ہے۔اس کی نفسانی خواہشات اسے اس کا درست لطف حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔چنانچہ اگر بے غرض اور محض اصلاح کی خاطراس راہ پر گامزن ہوا جائے تو عین ممکن ہے کہ اسے کشف بھی ہونے لگیں، بمعنی کہ اسے کچھ غیبی علم بھی ہاتھ لگ جائیں۔تاہم ساتھ ہی وہ یہ اقراربھی کرتے ہیں کہ موجودہ دور کا دکھائی دینے والا تصوف پاکیزگی کی بجائے محض مال جمع کرنے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیاہے۔
تصوف کے حامیان قرار دیتے ہیں کہ رائج الوقت مغربی نظامِ تعلیم، طلبہ میں تکبر کی بیماری کو جنم دیتا ہے۔مگر یہ ایک بہت عامیانہ سا نکتہ ہے کیونکہ تکبر کی بیماری توہمارے بڑے بڑے علما میں بھی بہت عام نظر آتی ہے جنہیں مغربی تعلیمی اداروں کی ہوا بھی نہیں لگی۔جہاں تک ”اہل اللہ“ کے ساتھ صحبت رکھنے کا تعلق ہے تو یہ بہرحال ایک عمدہ بات ہے کیونکہ اہل اللہ کی صحبت دلوں کے زنگ کو واقعی دور کرسکتی ہے۔جیساکہ معروف شعر ہے کہ
صحبت صالح تُرا صالح کند
صحبت طالح تُرا طالع کند
یعنی متقی افراد کے ساتھ نشست وبرخواست تجھے خود بھی پرہیزگار بنا سکتی ہے جبکہ لالچی افراد کے ساتھ نشست و برخواست تجھے لالچی انسان میں بھی تبدیل کرسکتی ہے۔ لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ اپنی جانب ”سالکین“ کا اس قدر ہجوم دیکھ کر خود”مصلحین“ میں بھی تکبر کا احساس ابھرسکتا ہے۔اور عام طور پر ایسا ہوتا ہی رہتا ہے!۔سائلین کو وہ ذاتی ملازم گرداننے لگتے ہیں اوراصلاح کی آڑ میں ان سے ایسے کام بھی لینے لگتے ہیں جوان کے بالکل ذاتی ہوتے ہیں۔بزگان ِ دین کے پشت در پشت موجودہ گدی نشینوں کے افکار و اعمال ،تمام مسلمانوں پر کب پوشیدہ ہیں؟۔بلکہ ان کی حرکتیں دیکھ کر کبھی کبھی توابکائی سی آنے لگتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے کب ان مجاہدوں ، ریاضتوں ،اور خانقاہوں کی ہدایت کی ہے؟۔ اور کب کسی صحابی نے مجاہدے اور اذکار کے اعمال کئے تھے؟۔ہمارے دیہاتوں میں بدعت اور شرک کی جو ناقابلِ بیان صورتِ احوال پائی جاتی ہے، وہ سراسر انہی مفاداتی صوفیاءو متولیان کی جنم کردہ ہے۔
چنانچہ اگراپنی اصلاح کرنی بھی مقصود ہے تب بھی” تصوف“ کی بجائے کیوں نہ لوگ” تزکئیے“کی اصطلاح استعمال کریں جو بذات ِ خود قرآنی اصطلاح ہے۔تصوف کی اصطلاح اول تو قرآن ِ پاک و احادیث ِ مبارکہ میں کہیں پائی ہی نہیں جاتی، اور دوئم اپنی اصل میں یہ خود ایک یونانی و عیسوی اصطلاح ہے۔ ذاتی و معاشرتی معاملات درست کرنے ہوں توانہیںہم تزکیے کے ساتھ درست کریں، نہ کہ تصوف کے ساتھ!۔ دونوں اصطلاحوں میں بعدا لمشرقین ہے ۔ایک خالصتاََ شرعی ہے، اور دوسری خالصتاََ اجنبی ہے!
وہی مثال کہ روزے جیسے مقدس فریضے کو ہندوﺅں کی مانند ہم روزے کے ساتھ ”برت“ بھی کہنے لگیں۔ بیرونی اصطلاحات میں بہرحال اپنا ایک غیر محسوس اثر پایا جاتا ہے جو دیر ےا سویراصل شرعی اصطلاح کو بھی آمیزہ کردیتا ہے۔ ادھر ہم یہاں ”صوفیت “ کو رواج دیں اور ادھروہ وہاں ”یوگا“ اور ”گیان“کو دنیا میں رائج کریں۔ اسلام کے اپنے صافی سرچشمے کی بجائے ہم آخر گدلے سرچشمے ہی کی طرف کیو ں لپکیں؟۔اصلاح ہی مقصودہے توپھر صوفیت ہی کی راہ کیوں، تزکیئے کی اصل راہ کیوں نہیں؟
رضی الدین سید۔کراچی
