رضی الدین سید۔کراچی
ولئیم گائی کار ایک کینیڈئین بحری کمانڈر تھا جس نے اپنی معرکۃ الاراکتاب ’’Pawns in the Game ‘‘ ۱۹۵۸ء(ترجمہ بساط عالم کے مہرے )میں ان ہولنا ک سازشو ں کو بے نقاب کیا ہے جو مغربی دنیا میں یہودی کرتے چلے آرہے تھے۔ کتاب میں اس نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کی پرامن فضا کو مسخ کرنے میں ہمیشہ ہی یہود یو ں کا ہاتھ رہا ہے۔ ہرجگہ ہی وہ کوئی فتنہ ضرور اٹھا تے ہیں تاکہ ونیا ایک دن بالآخر ان کے اپنے عملی ہا تھوں میں آجا ئے ۔نہ یہاں کوئی دیگرقوم بسے اورنہ کوئی دوسرا مذہب با قی رہے! ایک وحدانی عالمی نظام ہو جس میں تمام افراد براہ راست ان کی ما تحتی میں کام کریں۔ ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی شادی ،ا ن کی موت،سب کچھ انہی کی مرضی و منشا کے مطابق ہو ۔ دنیا کے ہر طبقے کو وہ کسی نہ کسی طرح اپنی غلامی میں لے لیتے ہیں تا کہ نہ صر ف یہ کہ وہ ا ن کی اپنی مرضی کے مطا بق چلے بلکہ مہرے کے طورپر استعمال بھی ہوں۔ عالمی امن پارہ پارہ کرنے اور جنگوں اور خون خرابوں کے لئے ان کے پاس بے شمار چا لیں ہیں ۔ گائی کار کہتا ہے کہ صیہونی منصوبوں کو پورا کرنے کی خاطر وہ خود یہودیوں کو بھی نہیں چھو ڑتے! ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استعمال ہونے والے طبقوں کو کبھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ صیہونی منصوبوں کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ یہ طبقے حکومتی افراد بھی ہوتے ہیں اور مذہبی گروہ، فوج، دانشور، مذہبی ولسانی فرقے، اور اساتذہ وغیرہ بھی۔
ولیئم گائی کارسیہونیوں کے ایک خفیہ اجتماع کی کاروائی لوگوں کے سامنے لاتے ہوئے لکھتاہے:
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک یہودی زرگر(سنار) یورپ میں اپنی آوارہ گردی سے تنگ آچکاتھا ، ۱۷۵۰ میں جرمنی میں ’’فرینکفرٹ آف دی مِین‘‘ میں قیام کا ارادہ کیا ۔ وہاں اپنی دوکان کے دروازے پر اس نے ایک سرخ شیلڈ (Red Shield یا Roth Schield)، کاروبای علامت کے طورپر آویزاں کی ۔ واضح رہے کہ روسی انقلاب کے با نیوں نے بھی سرخ رنگ کے پرچم کو اپنا شناختی نشان قرار دیا تھا۔ بعد میں یہ شخص اور اس کا خاندان’’ شیلڈ ‘‘کے نام ہی سے معروف ہوا۔ وہ ابھی تیس سا ل کا تھا کہ بارہ رئیس اور بااثر افرادکو اس نے فرینکفرٹ میں دعوت پر مدعو کیا ۔ جرمنی میں قیام کے بعد اس کے ذہن میں ایک سازشی منصوبہ پیدا ہوچکا تھا ۔ وہ ویسے ہی ذ ہین تھا۔ اس کے خیال میں عا لمی ما لیا ت میں اس کے مدعو یہ سارے مقتدر و دولت مند لوگ بھی ا گرا پنا کچھ حصہ ملاد یا کریں تو جاری انقلابی سرخ تحریک، اور پھر اس کے ذریعے د نیا بھر کے وسائل کو اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔
ایمشل روتھ شیلڈ نے تمام بااثر حاضرین کو گذشتہ انقلاب انگلستان کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے بتا یا کہ کس طرح انقلاب کو منظم و برپا کیا گیا تھا، اور کہاں کہاں کیا کیا غلطیاں واقع ہوئی تھیں؟ ۔ حاضرین کو مزید چند ا ہم نکات کی طرف متوجہ کر تے ہوئے مقرر نے اپنا منصوبہ فاش کرتے ہوئے کہا:
۱۔ چونکہ لوگوں کی اکثریت اچھا ئی کے مقا بلے میں برائی کو پسند کرتی ہے ،اس لئے ان پر حکومت کرنے کے بہترین نتائج تب ہی حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ تشدد اور دہشت کا استعما ل کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے علمی گفتگو بیکار ِ محض مشق ہے۔ مقرر نے دلیل د یتے ہوئے بتایا کہ آغاز میں انسانی معاشرہ ایک ا ندھی اور بے رحم قوت کے رحم و کرم پر تھا جسے بعد میں ’’قانون‘‘ کا نام دے د یا گیا۔ حالا نکہ قا نون کے نام پر اندھی اور بے رحم قوت نے محض اپنا بہروپ بدلا تھا ۔ دلیل د یتے ہوئے روتھ شیلڈ نے کہا کہ اس لحاظ سے یہ نتیجہ نکالنا بالکل عقلی بات ہوگی کہ قوانین ِ قدرت کے لحاظ سے سچائی خود ’’قوت ‘‘ کے اندرپوشیدہ ہوتی ہے۔
۲۔ حتمی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوئی ایک ذریعہ یا سارے ذرائع استعمال کرنا ہر لحاظ سے جا ئز ٹھہرتا ہے۔ جو لوگ حکومت کرنے کی امنگ رکھتے ہیں ، مکاری وبہا نے بازی کی خصوصیات ان کے ا ندر ضرور ہونی چا ہئیں۔ کیونکہ جرء ات اوربہا دری جیسی عظیم قومی خوبیاں سیاست کے اندر جاکر برائیاں تصور کی جانے لگتی ہیں۔
۳۔ اس کے بعد سامعین کو یہ بتا کر اس نے حیرت زدہ کردیا کہ ’’وسائل کی ہماری اس قوت کو کسی بھی حالت میں منظر عام پر نہیں آنا چا ہئے ۔ اس وقت تک جب تک کہ اس نے اتنی زبردست قوت نہ حاصل کرلی ہو کہ کسی بھی قسم کامُکرو طاقت اسے زیر نہ کرسکے۔
اس نے متنبہ کیا کہ تزویراتی منصوبہ ء عمل کے اس خط (لائن) سے معمولی انحراف بھی صدیوں سے کی گئی محنت و مشقت کو مٹی میں ملادے گا جس سے وہ ان (سامعین )کو ابھی آگاہ کررہا ہے۔
۴۔ اس کے بعد عوام الناس پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اس نے انہٰیں ’’ہجومی نفسیات‘‘ کا استعمال کرنے پر زوردیا ۔ بتایا کہ ہجوم کی قوت اندھی ، بے شعور، اورعقل سے عاری ہوتی ہے۔۔ وہ ہمیشہ ہر اس تجویز و ہدایت کے رحم وکرم پر ہوتی ہے جو اسے کہیں سے بھی حاصل ہوجائے۔اس نے بتایا کہ ’’ ہجوم پرصرف ایک مطلق العنان جا بر حکمران ہی کا میابی سے حکومت کرسکتا ہے۔ کیونکہ مطلق آمریت کے بغیرایسی تہذیب کا وجود، قا ئم ہوہی نہیں سکتا جسے عوام ا لناس نے نہیں ، بلکہ رہنما ئوں نے نا فذ کیا ہو، خواہ یہ رہنما کوئی بھی ہوں ۔ اس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جس لمحے عوام الناس آزادی کو اپنے ہا تھ میں لے لیں،اسی لمحے یہ آزادی نراجیت (لا قا نونیت) میں تبدیل ہوجا تی ہے‘‘
۵۔ بعدازاں نصیحت آمیز انداز سے اس نے کہا کہ شراب ،نشہ آور ادویات ، اخلاقی اور دیگر ہر قسم کی برائیوں کو وہ اپنے کماشتوں کے ذریعے منضبط اندا ز میں پھیلا ئیں تا کہ نوجوان نسل کی اخلا قیا ت تبا ہ ہوجا ئیں۔
۶۔ نعروں کے موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے اس نے کہاکہ ’’قدیم زمانوں‘‘ میں یہ ہم ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے آزادی ، مساوات، اور بھائی چارے کے الفاظ عوام کے منہ میں ٹھونسے تھے ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو طوطے کی طرح آج بھی احمق عوام میں حد سے زیادہ دہرا ئے جا تے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے ’’گویم‘‘(چوپائوں) کے خود پرست افراد کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے اور الفاظ کے معنی و با ہمی تعلق کے تضا دکو ذرہ برابر بھی محسوس نہ کرسکے۔ اس نے کہا کہ انہی الفاظ کے ذریعے ہماری ما تحتی میں ایسے وفا د ار لوگ آئے تھے جنہوں نے ہمارے بینروں کو پورے جوش و خروش سے تھا ما تھاْ ۔ اس نے وضاحت کی کہ دنیا میں مساوات ،آزادی، اوربھائی چارے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اشرافیہ کی عمارت ،اشرافیہ کے فطری اور جینئیاتی کھنڈر پر قا ئم کی گئی ہے۔ یہ نئی اشرافیہ جس کی شرط محض دولت ہے ، کسی اورکی نہیں بلکہ صرف ہماری محتاج ہے۔
۷۔ اس نے بتایا کہ صنعتی کساد بازاری اورمعاشی بے چینی کیسے پیداکی جا سکتی اور کیسے ان سے اپنے مقاصد کی آبیاری کی جا سکتی ہے؟۔ اس نے کہا کہ ’’وہ قوت جو ہمیں حاصل ہے اورجس کے تحت ہم غذائی بحران پیدا کرسکتے ہیں،عوام پراس کی وجہ سے مسلط کی گئی جبری بے روزگاری اور بھوک کے باعث سرما ئے کو ا قتدار کا ایک یقینی حق دلاسکیں گی۔ ایسا اقتدار جو اصلی اشرافیہ کو بھی حاصل نہیں ہے اور نہ شاہی فرمان کے جاری ہونے سے اسے حاصل ہوسکتا ہے ‘‘ ۔ دعویٰ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اپنے گما شتوں کے ذریعے ہجوم پر قابو پا کر اسی ہجوم سے پھر ان لوگوں کو نیست و نابود کرنے کا کام بھی لیا جائے گا جو ان کے راستے میں مزاحمت کرنے کی جراء ت کرتے رہے ہوں گے۔
۸۔ اس کے بعد اس نے لوگوں کو منضبط ( (Systematic دھوکہ دہی کی اہمیت و قدر کا حوالہ د یا اورکہا کہ وہ ا پنے گما شتوں کو بلند با نگ دعووں اورمعروف ونمایا ں نعروں کے استعما ل کی تعلیم د یں۔ انہیں چا ہئے کہ وہ عوام الناس کو اپنے وعد وں پر اندھا اعتما د کرنا سکھا ئیں۔ بے شک بعد میں ان وعدوں کے خلاف بھی کام کرلیا جا ئے ۔کیون کہ اس طرح کے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ مثال د یتے ہوئے اس نے بتا یا کہ’’ آزادی اورذاتی حق ‘‘ Liberty جیسے الفاظ کا استعمال گویم (گونگے) کو جذبہ ء وفاداری کے اس گڑھے کے قریب پہنچا دے گا جہاں وہ خدائی قوانین کے خلاف جنگ کے لئے خود ہی تیار ہوجائے گا ۔ اس نے مزید کہا کہ ’’یہی وجہ ہے کہ جونہی ہم اقتدار سنبھالیں گے، زندگی کی لغت سے نامِ خدا مٹادیں گے ‘‘۔
۹۔ بعدازاں اس نے ایک منصوبہ، جنگ کے بارے میں بھی پیش کیا۔یعنی گلی کوچوں کے جنگی ہنر اور دہشت و خون کی حکمرانی!۔ جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ ہر انقلابی جدوجہد میں ان عوامل کو ضرور استعمال کیا جا نا چا ہئے کیونکہ ’’عوام کو تیزی کے ساتھ اپنی غلامی میں لانے کے لئے سب سے سستا نسخہ یہی ہے‘‘۔
۱۰۔ نوجوانوں کی اہمیت اورنوجوانوں کی دلچسپیوں کو اپنے قبضے میں لینے کے ایک ایک پہلو کو بھی وہاں اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیا ۔ نصیحت کی گئی کہ ’’ہمارے گماشتوں کو ہر قسم کے طبقات ،معاشرت، اور حکومت میں اثر و نفوذ پیدا کرنا ہوگا۔ اورنوجوانوں کو مدہوش کرنا اور ان کے اخلاق خراب کرنا ،اور ایسے نظریا ت کی تعلیم دے کر بیوقوف بنا نا ہوں گے جن نظریات کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ محض باطل ہیں‘‘۔ مذکورہ منصوبے پر مصنف ولئیم گائی کار کامزید تبصرہ یہ ہے کہ اس پر مزید روشنی تب پڑتی ہے جب تفصیل بڑھتے بڑھتے سازش برطانوی شاہ ایڈورڈ ہشتم کی معزولی تک جا پہنچتی ہے۔ مصنف اندیشہ ظاہر کرتاہے کہ معروف سازشی دستاویز ’’دی پروٹوکولس آف دی ایلڈرس آف زائینس‘‘ Protocols of the Elders of Zion دراصل انہی نکات کی کتاب ہے جسے روتھ شیلد نے سود خوروں ، سناروں، صنعت کاروں،اورکاروباریوں کے سامنے پیش کیا تھا ۔ یاد رہے کہ میئر روتھ شیلڈ خود بھی ایک سود خور کاروباری تھا جو بعد میں بینکر بن گیاتھا۔
مصنف بحری کمانڈرولئیم گائی گار بیان کرتاہے کہ یہی سازشی ذہین افراد تھے جنہوں نے اپنے گماشتوں کے ذریعے وزیر اعظم برطا نیہ ولئیم پٹ کو بھی قرضوں میں دھنسا یا تھا اور پھر دبا ئو ڈال کرپر مستعفی ہونے پر مجبور بھی کیا تھا۔ اپنے ابتدائی دور ِ وزارت عظمیٰ میں اس نے جنگوں میں شریک ہونے سے انکار کیا تھا جو ان گماشتوٓں نے اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانے کے لئے بھڑکا ئی تھیں۔ وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے (۱۷۸۵ء) میں ولئیم پٹ نے ان عالمی ساہوکاروں کے بین الاقوامی معاملات میں دخٰیل ہونے کے بارے میں بہت کچھ جا ن لیا تھا۔ صیہونی چا لیں بہت خطرناک اور انتہا ئی خفیہ ہیں ۔ عالمی طور پر موجود حالیہ وبا ’’کورونا ‘‘ بھی دراصل دنیا بھر کو اپنی مکمل مٹھی میں لینے کی ان کی انہی چالوں پر مبنی ایک چال ہے ۔ بظا ہر معمول کی کاروائی سمجھتے ہوئے ہم سب ہی ان کے غیر محسوس مہرے بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اور جب وقت گذرچکا ہوتاہے تب جاکرپتہ لگتا ہے کہ کاروائی سے تو ملک و قوم کا بہت نقصان ہوچکا ۔ لیکن تب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پا نی بہہ چکا ہوتا ہے ۔
رضی الدین سید ۔۲۳۹۷۵۷۱۔۰۳۰۰