401

اجڑے چمن کا نرالہ باغبان

نفیر قلم
محمد راحیل معاویہ

مولانا طارق جمیل صاحب بہت بڑے خطیب اور مبلغ و داعی ہیں۔ انہوں نے اپنی ذہانت ، فصاحت ، بلاغت ،علمی ، دینی اور تبلیغی محنت کی وجہ سے پوری دنیا میں اپنا نام کمایا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس پرفتن دور میں فرقہ واریت جیسے مہلک مرض سے خود کو بچائے رکھا ہے۔ مسلکی ، گروہی اور فرقہ پرستی کی وجہ سے خود کو کبھی متنازع نہیں بننے دیا۔
ہمیشہ اعتدال کا رستہ اپناتے ہوئے لوگوں میں محبت بانٹی اور انہیں آپس میں توڑنے کی بجائے پیار ،محبت امن، اور سکون سے رہنے کی تلقین کی جس کی وجہ سے وہ ہر طبقہ فکر اور عوام الناس میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔
مولانا کے بے داغ ماضی اور شاندار کردار کی وجہ سے یہ سوال پوری قوت سے ابھرتا ہے کہ مولانا اس قدر محتاط ہونے کے باوجود تمیز و تہذیب سے خالی اور اخلاقی گراوٹ کی بہتی سیاسی گنگا میں خود کو آلودہ کرنے کی سنگین لاپرواہی کیوں کررہے ہیں ؟
مولانا اکثر بیان میں فرمایا کرتے تھے کہ حکمران قوم کی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں، عوام نیک و کار و پارسا ہو تو حکمران نیک سیرت جبکہ عوام چور اور کرپٹ ہو تو حکمران بھی انہی جیسے ہوتے ہیں۔
گذشتہ دنوں مولانا نے فرمایا کہ ہماری قوم نہایت جھوٹی، بدکردار اور بد دیانت ہے جبکہ اس جھوٹی ، چور اور کرپٹ قوم کا سربراہ اکیلا دیانت دار ،سچا اور مخلص آدمی ہے۔میں اس دن سے انگشت بداں سوچنے پر مجبور ہوں کہ چور و بددیانت قوم کا سربراہ ایماندار اور سچا کیسے ہوسکتا ہے ؟
مولانا کو یا تو اس قوم کے بارے میں غلط فہمی ہو گئی ہے یا پھر اس کے سربراہ کے بارے میں۔
نیز مولانا نے فرمایا کہ بیچارہ سچا مخلص اور ایماندار آدمی اس اجڑے ہوئے چمن کو کہاں تک آباد کرے۔
مولانا سے یہ سوال ہے کہ خان صاحب کے نزدیک تو سب سے عظیم اور بڑا لیڈر ہونے کے لیے ہر ہر وعدے سے مکرنا اور اپنے موقف و بیانات سے یو ٹرن لینا ہے، کیا مولانا کے پاس بھی قیادت کو پرکھنے کے لیے یہی کسوٹی ہے ؟
اور بصد احترام عرض ہے کہ اجڑے ہوئے چمن کی ایماندار نیک و کار اور مخلص باغبان ملنے سے پہلے شرح نمو 6•6 فیصد تھی جبکہ اب 1.5 فیصد ہے۔
اجڑے چمن میں شرح سود 5 فیصد تھی جبکہ چمن کے نرالے باغبان نے آکر 13 فیصد تک پہنچادی تھی جو کہ اب کورونا وائرس کی وجہ سے کچھ کم کردی گئی ہے۔
اجڑے چمن میں 53000 ایڈیکس پر پہنچی سٹاک مارکیٹ کو چمن کے سب سے بڑے خیر اندیش نے 35000 سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔
اجڑے چمن میں مہنگائی کی شرح 5.5 فیصد تھی جبکہ ملک و قوم کے سب سے بڑے خیر خواہ نے 16فیصد پر لا کھڑی کی ہے، جس میں بدستور اضافہ جاری ہے اور چمن کے باشندوں کی چیخیں آسمان تک سنائی دے رہی ہیں۔
اجڑے ہوئے چمن میں 58 ارب ڈالر سے سی پیک کے منصوبے شروع کیے گئے،بیرونی سرمایہ کاری 5700 ملین تھی مگر چمن کو آباد کرنے والوں نے سرمایہ کار کو پکڑنے ،گھسیٹنے ، ذلیل کرنے اور احتساب کے نام پر ایسا خوف دلایا کہ بیرونی سرمایہ کاری 2500 ملین تک سکڑ گئی اور چمن کے باغبان کو سو سو ڈالر کے لیے ہاتھ پھیلانے پڑے۔
اجڑے چمن نے اس چمن کو اتنا اجاڑا چمن 5 ارب روپے یومیہ مقروض ہوتا رہا، مگر قربان جائیے اس باغبان پر کہ جس نے اس چمن کو پومیہ 21 ارب روپے کا مقروض کیا۔
اجڑے چمن میں چین سے نہایت آسان شرائط پر قرضے حاصل کیے گئے، ان قرضوں میں سے 2021 تک ایک روپیہ بھی واپس نہیں کرنا مگر چمن سنوارنے کے لیے ہم نے ایسے باوفا دوست کے منصوبوں کو لات ماری اور 6 ارب ڈالر کے لیے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جا بیٹھے۔
اجڑے چمن میں امیروں کے ساتھ ساتھ کچھ سبسڈیز غریبوں کو بھی مل جاتی تھیں مگر اس چمن کو سنوارنے کے لیے ان غریبوں سے میٹرو بس تک کی سبسڈیز چھین لی گئیں مگر جہانگیر ترین اور خسرو بختیار جیسے شوگر مافیاز کو اربوں روپے کی سبسڈیز دی گئیں۔ اہل چمن نے35 روپے فی کلو مہنگی چینی بھی انہی سبسڈیز کھانے والوں سے خریدی اور اپنی حلق کے نوالے تک باغبانان چمن کے حوالے کردیے۔
اجڑے چمن میں 52 ڈالر فی بیرل ملنے والا تیل 70 روپے فی لیٹر فروخت ہوتا رہا اور اسد عمر جیسے ماہر معاشیات کیلکولیٹر لے کر بتاتے رہے کہ اس میں سے 40 روپے فی لیٹر نواز شریف کی جیب میں جاتے ہیں مگر اب یہ تیل عالمی منڈی میں منفی حدتک گر گیا لیکن قوم کو 97 روپے لیٹر فروخت ہوتا رہا اور یہ پتا نا چل سکا کہ اب یہ پیسے کس کی جیب میں جارہے ہیں۔
اجڑے چمن میں سن 2018 کے اندر غربت کا تناست 31 فیصد تھا مگر اب یہ 45 فیصد تک پہنچ گیا ہے جس میں مزید تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
اجڑے چمن میں خط غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں تعداد 7 کروڑ تھی اور اس ہرے بھرے آباد چمن میں 9 کروڑ کو پہنچ چکی ہے۔
اجڑے چمن میں کئی صاحب نصاب افراد کہ جن پر زکوة فرض تھی وہ اس آباد چمن میں مستحقین زکوة ہیں۔
بقول شاعر
میں اس گلشن کا بلبل ہوں بہار آنے نہیں پاتی
کہ صیاد آن کر میرا گلستاں مول لیتے ہیں
محمد راحیل معاویہ نارووال

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں