390

دنیا کو اپنے ڈھب پر لانے کا صیہونیوں کا خفیہ منصوبہ

ولئیم گائی کار ایک کینیڈ ئین بحری کمانڈر تھا جس نے اپنی معرکۃ الاراکتاب ’’پانس ان دی گیم‘‘۱۹۵۸ء(ترجمہ بساط عالم کے مہرے از راقم) میں ان ہولناک سا زشو ں کو بے نقا ب کیا ہے جو مغربی دنیا میں یہو دی کرتے چلے آرہے تھے ۔ کتاب میں اس نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کی پرامن فضا کو مسخ کرنے میں ہمیشہ ہی یہو دیو ں کا ہا تھ رہا ہے۔ ہرجگہ ہی وہ کوئی فتنہ ضرور اٹھا تے ہیں تا کہ نیا ایک دن بالآخر ان کے اپنے عملی ہاتھوں میں آجائے ۔ نہ یہا ں کوئی د یگر قوم بسے اورنہ کوئی دوسرا مذ ہب با قی رہے! ایک وحدانی عا لمی نظام ہو جس میں تما م افراد براہ راست ان کی ما تحتی میں کام کریں۔ ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی شادی ،ا ن کی موت،سب کچھ انہی کی مرضی و منشا کے مطابق ہو۔ دنیا کے ہر طبقے کو وہ کسی نہ کسی طرح اپنی غلامی میں لے لیتے ہیں تاکہ نہ صر ف یہ کہ وہ ا ن کی اپنی مرضی کے مطابق چلے بلکہ مہرے کے طورپر استعما ل بھی ہوں۔ عالمی امن پارہ پارہ کرنے اور جنگوں اور خون خرابوں کے لئے ان کے پاس بے شمار چالیں ہیں ۔ گائی کار کہتا ہے کہ صیہونی منصوبوں کو پورا کرنے کی خاطر وہ خود یہودیو ں کو بھی نہیں چھوڑتے! ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استعمال ہونے والے طبقوں کو کبھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ صیہونی منصوبوں کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ یہ طبقے حکومتی افراد بھی ہوتے ہیں اور مذہبی گروہ، فوج، دانشور، مذہبی ولسانی فرقے، اور اساتذہ وغیر ہ بھی۔
ولیئم گائی کاصیہونیوں کے ایک خفیہ اجتماع کی کاروائی لوگوں کے سامنے لاتے ہوئے لکھتاہے:
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک یہو دی زرگر(سنار) ’’ایمشِل مائر روتھ شیلڈ‘‘ نے جو مشرقی یو رپ میں اپنی آوارہ گردی سے تنگ آچکاتھا، ۱۷۵۰ میں جرمنی میں ’’فرینکفر ٹ آف دی مِین‘‘ میں قیام کا ارادہ کیا ۔ اپنی دوکان کے دروازے پر اس نے ایک سرخ شیلڈ (روتھ شیلڈ یا ریڈ شیلڈ)، کاروبای علامت کے طورپر آویزاں کی ۔ واضح رہے کہ روسی انقلاب کے بانیو ں نے بھی سرخ رنگ کے پرچم کو اپنا شناختی نشان قرار دیا تھا ۔ بعد میں یہ شخص اور اس کا خاندان ’’ شیلڈ ‘‘کے نام ہی سے معروف ہوا ۔ وہ ابھی تیس سال کا تھا کہ بارہ رئیس اور بااثر افرادکو اس نے فرینکفر ٹ میں دعوت پر مدعو کیا۔جرمنی میں قیا م کے بعد اس کے ذہن میں ایک سازشی منصوبہ پید ا ہوچکا تھا ۔ وہ ویسے ہی ذہین تھا۔ اس کے خیا ل میں عالمی ما لیا ت میں اس کے مدعو یہ سارے مقتد ر و دولت مند لوگ بھی ا گرا پنا کچھ حصہ ملاد یا کریں تو جاری سرخ انقلابی تحریک اور پھر اس کے ذریعے دنیا بھر کے وسائل کواپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔

ایمشل روتھ شیلڈ نے تمام بااثر حاضرین کو گذ شتہ انقلاب انگلستان کے بارے میں آگاہی د یتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انقلاب کو منظم و برپا کیا گیا تھا، اور کہاں کہاں کیا کیا غلطیا ں واقع ہوئی تھیں؟ ۔ حاضرین کو مزید چند ا ہم نکات کی طرف متوجہ کر تے ہوئے مقرر نے اپنا منصوبہ فاش کرتے ہوئے کہا:
۔ چونکہ لوگوں کی اکثریت اچھا ئی کے مقابلے میں برائی کو پسند کرتی ہے ، اس لئے ان پر حکومت کرنے کے بہترین نتائج تب ہی حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ تشدد اور دہشت کا استعما ل کیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے علمی گفتگو بیکا ر ِ محض مشق ہے ۔ مقرر نے د لیل دیتے ہوئے بتایا کہ آغاز میں انسا نی معاشرہ ایک ا ندھی اور بے رحم قوت کے رحم و کرم پر تھا جسے بعد میں ’’قانون‘‘ کا نا م دے دیا گیا۔ حا لانکہ قانون کے نام پر اندھی اور بے رحم قوت نے محض اپنا بہروپ بدلا تھا۔ دلیل دیتے ہوئے روتھ شیلڈ نے کہا کہ اس لحاظ سے یہ نتیجہ نکا لنا بالکل عقلی بات ہوگی کہ قوانین ِ قدرت کے لحاظ سے سچائی خود ’’قوت ‘‘ کے اندرپوشید ہ ہوتی ہے۔
۔ حتمی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوئی ایک ذریعہ یا سارے ذرائع استعمال کرنا ہر لحاظ سے جائز ٹھہرتا ہے۔ جو لوگ حکومت کرنے کی امنگ رکھتے ہیں ، مکاری وبہا نے با زی کی خصوصیا ت ان کے ا ندر ضرور ہونی چا ہئیں ۔ کیونکہ جرء ات اوربہا دری جیسی عظیم قومی خوبیا ں سیا ست کے اندر جاکر برائیاں تصور کی جا نے لگتی ہیں ۔
۔ اس کے بعد سا معین کو یہ بتا کر اس نے حیر ت زدہ کردیا کہ ’’وسائل کی ہماری اس قوت کو کسی بھی حالت میں منظر عام پر نہیں آنا چاہئے ۔ اس وقت تک جب تک کہ اس نے اتنی زبردست قوت نہ حاصل کرلی ہو کہ کسی بھی قسم کا مُکرو طاقت اسے زیر نہ کرسکے ۔
اس نے متنبہ کیا کہ تزویر اتی منصوبہ ء عمل کے اس خط (لائن) سے معمولی انحراف بھی صدیو ں سے کی گئی محنت و مشقت کو مٹی میں ملادے گا جس سے وہ ان (سامعین) کو ابھی آگاہ کررہا ہے ۔
۔ اس کے بعد عوام الناس پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اس نے انہیں ’’ہجومی نفسیا ت‘‘ کا استعمال کرنے پر زوردیا ۔ بتایا کہ ہجوم کی قوت اندھی بے شعور، اورعقل سے عاری ہوتی ہے۔۔ وہ ہمیشہ ہر اس تجویز و ہدایت کے رحم وکرم پر ہوتی ہے جو اسے کہیں سے بھی حاصل ہوجائے۔اس نے بتایا کہ ’’ ہجوم پرصرف ایک مطلق العنان جابر حکمران ہی کامیا بی سے حکومت کرسکتاہے۔ کیونکہ مطلق آمریت کے بغیر ایسی تہذیب کا وجود ، قا ئم ہوہی نہیں سکتا جسے عوام النا س نے نہیں ، بلکہ رہنما ئوں نے نا فذ کیا ہو، خواہ یہ رہنما کوئی بھی ہوں ۔ اس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جس لمحے عوام الناس آزادی کو اپنے ہاتھ میں لے لیں،اسی لمحے یہ آزادی نراجیت (لاقا نونیت) میں تبدیل ہوجاتی ہے‘‘
۔ بعدازاں نصیحت آمیز انداز سے اس نے کہا کہ شراب ،نشہ آور ادویا ت ، اخلاقی اور دیر ہر قسم کی برائیوں کو وہ اپنے کماشتوں کے ذریعے منضبط انداز میں پھیلائیں تاکہ نوجوان نسل کی اخلاقیات تباہ ہوجائیں۔
۶۔ نعروں کے موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے اس نے کہاکہ ’’قدیم زمانوں‘‘ میں یہ ہم ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے آزادی ، مساوات، اور بھائی چارے کے الفاظ عوام کے منہ میں ٹھونسے تھے ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو طوطے کی طرح آج بھی احمق عوام میں حد سے زیا دہ د ہرائے جاتے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے ’’گویم‘‘(چوپائوں) کے خود پرست افراد کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے اور الفاظ کے معنی و باہمی تعلق کے تضادکو ذرہ برابر بھی محسوس نہ کرسکے۔ اس نے کہا کہ انہی الفاظ کے ذریعے ہماری ماتحتی میں ایسے وفادار لوگ آئے تھے جنہوں نے ہمارے بینر وں کو پورے جوش و خروش سے تھاما تھاْ ۔ اس نے وضاحت کی کہ دنیا میں مساوات ،آزادی، اوربھائی چارے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اشرافیہ کی عمارت ،اشرافیہ کے فطری اور جینئیاتی کھنڈر پر قائم کی گئی ہے ۔ یہ نئی اشرافیہ جس کی شرط محض دولت ہے ، کسی اور کی نہیں بلکہ صرف ہماری محتاج ہے۔
۔ اس نے بتایا کہ صنعتی کساد بازاری اورمعاشی بے چینی کیسے پید اکی جاسکتی اور کیسے ان سے اپنے مقاصد کی آبیا ری کی جاسکتی ہے؟۔ اس نے کہا کہ ’’وہ قوت جو ہمیں حاصل ہے اورجس کے تحت ہم غذائی بحران پید ا کرسکتے ہیں ، عوام پراس کی وجہ سے مسلط کی گئی جبری بے روزگاری اور بھوک کے باعث سرما ئے کو اقتدار کا ایک یقینی حق د لاسکیں گی ۔ ایسا اقتدار جو اصلی اشرافیہ کو بھی حاصل نہیں ہے اور نہ شا ہی فرمان کے جاری ہونے سے اسے حاصل ہوسکتا ہے ‘‘ ۔ دعویٰ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اپنے گما شتوں کے ذریعے ہجوم پر قابو پا کر اسی ہجوم سے پھر ان لوگوں کو نیست و نابود کرنے کا کام بھی لیا جائے گاجو ان کے راستے میں مزاحمت کرنے کی جراء ت کرتے رہے ہوں گے۔
۔ اس کے بعداس نے لوگوں کو منضبط (سسٹیمیٹک( دھوکہ دہی کی اہمیت و قد ر کا حوالہ دیا اورکہا کہ وہ ا پنے گماشتوں کو بلند بانگ دعووں اورمعروف ونما یا ں نعروں کے استعما ل کی تعلیم د یں ۔ انہیں چاہئے کہ وہ عوام الناس کو اپنے وعدوں پر اندھا اعتما د کرنا سکھا ئیں۔ بے شک بعد میں ان وعدوںکے خلاف بھی کام کرلیا جائے ۔کیو نکہ اس طرح کے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ مثال دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ’’ آزادی اورذاتی حق ‘‘ (لبرٹی ) جیسے الفاظ کا استعمال گویم (گونگے) کو جذبہ ء وفاداری کے اس گڑھے کے قریب پہنچادے گا جہاں وہ خدائی قوانین کے خلاف جنگ کے لئے خود ہی تیا ر ہوجائے گا۔ اس نے مزید کہا کہ ’’یہی وجہ ہے کہ جونہی ہم اقتدار سنبھالیں گے، زندگی کی لغت سے نامِ خدا مٹادیں گے ‘‘۔
۔ بعدازاں اس نے ایک منصوبہ، جنگ کے بارے میں بھی پیش کیا ۔ یعنی گلی کوچوں کے جنگی ہنر اور دہشت و خون کی حکمرانی! ۔ جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ ہر انقلابی جدوجہد میں ان عوامل کو ضرور استعمال کیاجانا چاہئے کیو نکہ ’’عوام کو تیزی کے ساتھ اپنی غلامی میں لانے کے لئے سب سے سستا نسخہ یہی ہے‘‘۔
۔ نوجوانوں کی اہمیت اوران کی دلچسپیوں کو اپنے قبضے میں لینے کے ایک ایک پہلو کو بھی وہاں اہمیت کے ساتھ بیا ن کیا گیا ۔ نصیحت کی گئی کہ ’’ہمارے گما شتوں کو ہر قسم کے طبقا ت ،معاشرے، اور حکومت میں اثر و نفوذ پید ا کرنا ہوگا اورنوجوانوں کو مدہوش ، اور ان کے اخلاق کوخراب کرنا ،اور ایسے نظریا ت کی تعلیم دے کر بیو قوف بنا نا ہوگا جن نظریا ت کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ محض باطل ہیں‘‘۔ مذکورہ منصوبے پر مصنف ولئیم گائی کار کامزید تبصرہ یہ ہے کہ اس پر مزید روشنی تب پڑتی ہے جب تفصیل بڑھتے بڑھتے کوئی سازش برطانوی شاہ ایڈ ورڈ ہشتم کی معزولی تک جا پہنچتی ہے ۔ مصنف اندیشہ ظا ہر کرتاہے کہ معروف سازشی دستاویز ’’دی پروٹوکولس آف دی ایلڈ رس آف زائینس‘‘ (پروٹوکولس آف دی ایلڈرس آف زائینس) دراصل انہی نکا ت کی کتاب ہے جسے روتھ شیلڈ نے سود خوروں ، سناروں، صنعت کاروں،اورکاروباریو ں کے سامنے پیش کیاتھا ۔ یا د رہے کہ میئر روتھ شیلڈ خود بھی ایک سود خور کاروباری تھا جو بعد میں بینکر بن گیا تھا ۔
مصنف بحری کمانڈرولئیم گائی گار بیا ن کرتا ہے کہ یہی سازشی ذہین افراد تھے جنہوں نے اپنے گما شتوں کے ذریعے وزیر اعظم برطانیہ ولئیم پٹ کو بھی قرضوں میں دھنسا یا تھا اور پھر دبا ئو ڈال کر مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا ۔ اپنے ابتدائی دور ِ وزارت عظمیٰ میں اس نے جنگوں میں شریک ہونے سے انکار کیا تھا جو ان گماشتوٓں نے اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانے کے لئے بھڑکائی تھیں ۔ وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے (۱۷۸۵ء) میں ولئیم پٹ نے ان عالمی ساہوکا روں کے بین الاقوامی معا ملات میں دخٰیل ہونے کے بارے میں بہت کچھ جان لیا تھا۔ صیہونی چالیں بہت خطرناک اور انتہائی خفیہ ہیں ۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی موجودہ وبا ’’کورونا وائرس‘‘ بھی دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کرلینے کی ایک گہر ی سازش ہے جس کا ادراک لوگوں کو بہت بعد میں ہوسکے گا ۔ بظاہر معمول کی کاروائی سمجھتے ہوئے ہم سب ہی ان کے غیر محسوس مہرے بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اور جب وقت گذرچکا ہوتاہے تب جا کرپتہ لگتا ہے کہ کاروائی سے تو ملک و قوم کا بہت نقصان ہوچکا ۔ لیکن تب تک تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکاہوتا ہے ۔

رضی الدین سید ۔۲۳۹۷۵۷۱۔۰۳۰۰


RAZIUDDIN SYED
0331-2646109

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Baidari.com. The Baidari.com does not assume any responsibility or liability for the same.


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں